CM RizwanColumn

مظلومیت کے لامحدود کارڈز

سی ایم رضوان
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بجا طور پر تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف پارٹی آئین، الیکشن ایکٹ 2017اور الیکشن رولز 2019 کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات رکوانے میں ناکام رہی ہے۔ اس پر کالعدم پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خلاف بے تکی اور بے جا تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے حالانکہ دوسری طرف سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف ابھی تک ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ یعنی جو ریلیف بھی ممکن ہو اس لاڈلی پارٹی کو اداروں اور عدالتوں سے مل رہا ہے اس کے باوجود مظلومیت اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا ان کا جھوٹا واویلا آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بعض چھوئی موئی قسم کے پی ٹی آئی رہنمائوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایات بھی آ رہی ہیں اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو وہاں لے جائیں گے جہاں جانے والے نامعلوم کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہر میلے پر غنڈوں کے ہاتھوں لٹ جانے کا واویلا کرنے والی لڑکی کی مانند فردوسِ شمیم نقوی ایک بار الزام لگا رہے ہیں کہ ’’ آج میرے گھر اور دفتر میں تین گاڑیوں پر کچھ لوگ آئے۔ مجھے پیغام دیا گیا کہ مجھے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروانے چاہئیں اور اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو وہ مجھے کہیں اٹھا کر لے جائیں گے۔ میں پہلے ہی گھر میں نظر بند ہوں۔ جن لوگوں نے مجھے پیغام رسانوں کے ذریعے پیغام پہنچایا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مجھے صرف جیل میں نہیں ڈالیں گے بلکہ وہاں لے جائیں گے جہاں جانے والے نامعلوم کہلاتے ہیں‘‘۔ یہ ہیں پاکستان تحریک انصاف کے کراچی سے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی جنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں مظلوم ہونے کا کوئی ایک موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان کی ہر بار کوشش یہی ہوتی ہے کہ پولیس کا کوئی سپاہی یا اہلکار ان پر فرینڈلی طور پر ڈنڈے برسا رہا ہو اور اوپر سے ان کی لائیو ویڈیو بن جائے اور وہ ویڈیو وائرل ہو جائے اس طرح انہیں سندھ بھر میں پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ مظلوم قائد ہونے کا اعزاز حاصل ہو جائے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نگراں وزیر اعلیٰ سندھ مقبول باقر کے لئے چھوڑے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں فردوس شمیم نقوی موصوف کا مزید کہنا تھا کہ ’’ کیا یہ آزاد الیکشن ہے، کیا یہ آزاد پاکستان ہے۔ یہ بھی مطالبہ کر ڈالا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اقدام اٹھائیں کہ میں آزاد پاکستانی کی طرح آزادانہ طور پر الیکشن لڑ سکوں‘‘۔
قارئین دیکھ اور سن رہے ہیں کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے کے سلسلے میں مشکلات اور رکاوٹوں سے متعلق دعوے اور الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ ایسا ہی مظلومیت کی ایک کارڈ ہونے کا ایک دعویٰ پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 77سے تحریک انصاف کے امیدوار اور سابق رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود نے بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’ میرے وکلا کاغذات نامزدگی لے کر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر گئے تو وہاں موجود پولیس نے انہیں اندر ہی نہیں جانے دیا۔ ہمارے وکلا، تجویز کنندگان و تائید کنندگان کو عمارت تک میں داخل نہیں ہونے دیا گیا‘‘۔ میاں طارق محمود نے کہا کہ ہمیں کاغذات نامزدگی تو داخل کرانے دیئے جائیں، یہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ میری عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے اپیل ہے کہ ہمیں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا حق دیا جائے۔ ان کی دیکھا دیکھی پنجاب کے بہت سے حلقوں میں تحریک انصاف کے رہنماں اور کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کاغذات نامزدگی کے حصول میں مشکلات درپیش آئیں اور اگر وہ انہیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں تو ان سے کاغذات چھین لئے گئے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں اسی طرح کا الزام عائد کیا تھا کہ اُن کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے حصول کے فوراً بعد ان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا جس کے دوران انہیں ہراساں اور زدوکوب کیا گیا۔ یہ ویڈیو وائرل ہو گئی تو پھر پی ٹی آئی کے ہر امیدوار نے یہی طریقہ اپنایا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماں کے مطابق پورے ملک بالخصوص پنجاب کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے جن رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف نو مئی کے واقعات کے تناظر میں مقدمات درج کیے گئے تھے، ان مقدمات میں نامزد ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے پولیس ایک بار پھر متحرک ہے اور ان کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جانے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ صرف ضلع گوجرانوالہ کی بات کی جائے تو پولیس نے قانون کے عین مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے گوجرانوالہ کینٹ پر حملے اور جلائو گھیرائو کے مقدمے میں تحریک انصاف کے 51رہنماں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری حاصل کر رکھے ہیں۔ اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی نے احتجاج کے نام پر نو مئی کو اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف جنگ چھیڑی تھی اس پارٹی کو ملک بھر میں ایک کالعدم جماعت کے طور پر نہیں ایک نارمل سیاسی جماعت کے طور پر لیا جارہا ہے۔ اس معاملے کی بازگشت جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں بھی اس وقت سُنی گئی جب تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہ کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس سے متعلق تحریک انصاف کی شکایت پر الیکشن کمیشن اور حکومت کو فوری ازالے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بظاہر تحریک انصاف کا لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عثمان ڈار کے گھر جو ہوا وہ اخبارات میں شائع ہوا ہے، ایک سیاسی جماعت کو کیوں دیوار سے لگایا جا رہا ہے؟ دورانِ سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف ایم پی او کے آرڈر کیوں نہیں رکوا پا رہا ہے؟ سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کی شکایات کا ازالہ کرنے کی ہدایات کے ساتھ کہا کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی موقع ملے۔ سپریم کورٹ کے ان احکامات کے بعد تحریک انصاف کے رہنمائوں کے ایک وفد نے الیکشن کمیشن کا دورہ بھی کیا اور چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ کمیشن کو انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے حصول میں مشکلات سے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ میڈیا میں بعض امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے جیسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے ان واقعات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنرز، چیف سیکرٹریز اور تمام آئی جیز پولیس کو کہا ہے کہ اس ضمن میں موصول ہونے والی تمام شکایات کا قانون کے مطابق ازالہ کیا جائے۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین نے بھی کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام شکایات کا جائزہ لیا جائے گا اور انہیں حل کیا جائے گا۔
نو مئی کی تخریبی کارروائیوں سے قطع نظر بمطابق قانون اس حد تک ہمدردانہ شنوائی کے باوجود پی ٹی آئی رہنمائوں کی ہراساں کئے جانے کی شکایات یہاں تک پہنچ گئی ہیں کہ ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو انہیں جبری طور پر گمشدہ کر دیا جائے گا اور وہاں لے جایا جائے گا جہاں جانے والے نامعلوم کہلاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پہلے دن سے لے کر آج تک پی ٹی آئی نے نظام کو بلیک میل کر کے نظام لپیٹنے کی جو کوشش شروع کر رکھی ہے نجانے کیوں اس کوشش کی شروع سے لے کر آج تک حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ شاید اس کی ایک خاص وجہ نظام میں موجود بعض رحم دل اور محض سرسری نظر سے دیکھ کر معاملات کو نمٹانے والے سٹیک ہولڈرز کی دور اندیشی کا فقدان ہے جو یہ نہیں سوچتے کہ اگر اب اور آئندہ پی ٹی آئی کو بطور ایک سیاسی جماعت کے ملک کے نظام میں جگہ دی گئی تو پاک فوج کی ملک میں کیا جگہ ہو گی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی جانب سے مظلومیت کے جعلی کارڈز جو استعمال کئے جا رہے ہیں اس بے جا استعمال میں روز افزوں اضافہ ہو ریا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button