ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت کیوں؟

تجمل حسین ہاشمی
میرا لڑکپن پنجاب اور باقی زندگی شہر کراچی میں گزر رہی ہے، دو بڑے صوبوں کے رسم و رواج، رہن سہن اور چودھراہٹ، وڈیرا شاہی کے تمام طور طریقوں کو قریب سے دیکھا ہے، خاص کر دیہی سندھ میں لوگوں کا طرز زندگی اور ووٹنگ پیٹرن بہت مختلف ہے۔ برادریوں، قبیلوں میں صرف بھٹو کے نام کا ووٹ ہے، کئی سال سے پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی تگڑا اتحاد نہیں بن سکا اور اس دفعہ بھی کوئی ایسا تگڑا اتحاد پیپلز پارٹی کے مدے مقابل نظر نہیں آ رہا۔ سندھ کی دوسری چھوٹی پارٹیاں اور بڑے نام اس قدر طاقتور نہیں کہ صوبہ سندھ کی سیاست کو متاثر کر سکیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹر پیپلز پارٹی کو متاثر کر سکتا تھا لیکن ایم کیو ایم ہر دور میں حکومتی حلقوں میں رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی۔ حقیقی اپوزیشن کے طور پر نظر نہیں آئی۔ ان کی سیاست بھی بیان بازی تک محدود رہی۔ اس لیے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں برادریاں، قبیلے ذات پات کی تقسیم کا زیادہ شکار ہیں۔ وہاں ذات کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں برادری فیصلہ کرتی ہے کہ ووٹ کس پارٹی کو دیا جائے گا، کئی برس سے حکومت میں رہنے والی مسلم لیگ ن کو پنجاب میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پنجاب میں لوگوں کے پاس بھٹو جیسا خاندان نہیں ہے۔ جس نے جمہوریت کے لیے جان دی لیکن ایگریمنٹ نہیں کیا ہو۔ پنجاب میں لوگوں کے پاس ووٹ ڈالنے کی چوائس موجود ہے۔ ایسی چوائس خاص کر سندھ میں بہت محدود ہے۔ سینئر صحافی نے 2018 ء میں نواز شریف کے واقعہ کو لے کر پنجاب والوں کو کوفی کہا جو کہ نا مناسب تھا ، ایسے لکھنے سے اجتناب ضروری ہے جس سے تفریق اور صوبوں کے امیج کو نقصان ہو لیکن شاید سینئر صحافی یہ بھول گئے ہیں کہ پچھلے آٹھ انتخابات اور کوئی 40سالوں سے سیاسی جماعتیں بنیادی سہولتوں اور انسانی حقوق کے لیے کوئی موثر اقدامات نہ کر سکیں جو جمہوری تھے جن کو بار بار منتخب کیا گیا جنہوں نے معاشی پلاننگ کرنی تھی وہ تاجر اور لوٹ مار کے ماہر نکلے، نیب جیسے تگڑے ادارے سیاسی قائدین اور اسمبلی میں بیٹھے تاجر سیاست دانوں سے کچھ ثابت نہ کروا سکے۔ قوم نے بھی کیسی قسمت پائی ہے، احتساب کے نام پر بیانیہ بنا کر حکومت کرنے والے سیاسی مفاہمت کی نظر ہو گئے ۔ سابقہ وزیر شیخ رشید کا کہنا تھا ’’ ملک میں دو لوگ اس وقت خاموش ہیں ایک میں اور دوسرا نواز شریف ‘‘۔ مقدمات سے بری ہونے سے ثابت ہوا کہ ان پر کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی لیکن ملک پھر بھی معاشی طور پر انتہائی کمزور، ڈیفالٹ کے قریب، قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ واحد جمہوری ملک ہے جہاں سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویوں سے ملک کی معاشی گروتھ نہیں ہو سکی۔ ہماری ہاں سیاست میں نعرے اداروں کے خلاف لگائے جاتے ہیں اور کمزور معیشت کو اداروں کی نا اہلی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اداروں کو پالیسی دینے اور چلانے کی ذمہ داری اسمبلی میں بیٹھے ان افراد کی ہے جن کو عوام نے منتخب کیا ہے۔ معاشرتی تفریق اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافہ عدل و انصاف کی کمزوری ہے۔ جن کی ذمہ داری ریاست ہے وہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو چور چور کہہ کر معاشرتی اخلاقیات کو ختم اور عدالتی نظام کو کمزور کر رہی ہیں، ایک طاقتور دوسرے طاقتور کا سہارا بن کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے چور چور کا شور مچا کر معاشرے میں افراتفری پیدا کی ہے۔ جناب اس افراتفری کی وجہ ماضی کی حکومتوں کی ناکام معاشی پالیسیاں ہیں، جس کو پی ٹی آئی استعمال کر کے لوگوں کو چارج کر گئی۔ دوسروں کے خلاف سیاسی محاذ آرائی ہے۔ نوجوان بے روزگار، غریب کا گھر نہیں چل رہا۔ سیاسی جماعتوں نے اداروں کو اپنے مفادات میں استعمال کیا ہے۔
بنگلہ دیش کو ہم سے الگ ہوئے 52سال ہو چکے ہیں ، بنگلہ دیش کی 1972ء میں معاشی گروتھ ریٹ منفی 13فیصد تھی اور اسی سال ہماری گروتھ ریٹ 1فیصد تھی، آج 52 سالوں بعد ہماری معیشت کا حجم 340ارب ڈالر ہے اور مشرقی بنگلہ دیش کا حجم 454ارب ڈالر ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام پر ہماری فی کس آمدنی 1565ڈالر رہی اور بنگلہ دیش کے اکنامک ریویو میں فی کس آمدنی 2687ڈالر ہے، چین کے بعد گارمنٹس کا بڑا ایکسپورٹر ہے اور ہمارے ہاں جن زمینوں پر کپاس اگائی جاتی تھی وہاں اب سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں یا پھر شوگر مافیا نے ملز لگا کر گنا اگا دیا ہے کیوں شوگر ایزی کیش اور ڈبل منافع کے ساتھ اربوں کی حکومتی سبسڈی پر آرام سے ہاتھ صاف ہو جاتے ہیں۔ الیکشن کا شیڈول جاری ہو چکا اور ابھی سے وزیر اعظم بننے کے وعدے، نعرے مارکیٹ کئے جا رہے ہیں، جلسوں جلوسوں میں ایسے ایسے کارنامے گنوائے جائیں گے کہ ان سے بڑا کوئی معاشی منصوبہ ساز اور لیڈر نہیں ملے گا، بابوں اور تجربہ کاروں نے ہمیں لوٹا بھی اور مہنگائی سے کمایا بھی۔ آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش کہاں کھڑا ہے اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں، ORSبنگلہ دیش کی ایجاد ہے جس کو پوری دنیا استعمال کر رہی ہے اور ہم بیانیے اور نعرے ایجاد کر رہے ہیں۔ دوبارہ پھر ایک شخص باری لینا چاہتا ہے، ملک کی قسمت بدلنا چاہتا ہے، جس ملک کی صوبائی حکومتیں اور 13ادارے 259ارب کے نادہندہ ہوں جہاں ٹی سی پی روزانہ کی بنیاد پر 6ارب ڈالر سود ادا کیا جاتا ہو۔ 153ارب صرف سود کی رقم واجب الادا ہو تو وہاں ترقی کے سب پیمانے اور بیانے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ عوامی ووٹ اس بار ثابت کرے کہ ملک میں جوڑ توڑ کی سیاست نہیں چلے گی یا مکمل بند ہو جائے گی ، اگر گزشتہ آٹھ انتخابات کی طرز پر الیکشن کے بعد حکومت تشکیل دی گئی تو پھر مہنگائی کے طوفان کو روکنا مشکل ہو گا، پچھلی 17ماہ کی اتحادی حکومتی کی کارکردگی نے لوگوں کی توبہ کرا دی ہے، نگران حکومت کے آتے ہی اعلیٰ اداروں کی طرف سے سخت اقدامات اور مافیا کے خلاف کارروائیوں سے عوامی ریلیف میں تھوڑی بہتری ہوئی، 17ماہ میں مہنگائی اور بے روزگاری انتہا تک پہنچ گئی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم نے سیاسی قربانی دے کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے، ہماری سیاسی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button