ColumnImtiaz Aasi

ایاز امیر کا نوحہ

امتیاز عاصی
اسلام میں ایک قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، قاتل کو خون معاف کرنے کا اختیار اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مقتول کے ورثاء کو دیا ہے۔ فطرت انسانی ہے کوئی انسان قتل ہوتا ہے تو اس کے خاندان اور دیگر لوگوں کی ہمدردیاں مقتول کے گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ قاتل کو موت کی سزا یا عمر قید ہوتی ہے تو اس کے خاندان اور جان پہنچان والے پرسا دینے قاتل کے گھر والوں کے پاس جاتے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو قاتل اور مقتول دونوں کے خاندان برباد ہو جاتے ہیں۔ ایک اردو معاصر میں ممتاز صحافی اور کالم نگار ایاز امیر کا کالم نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے شاہنواز امیر کی پھانسی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ایاز امیر کو اپنے فرزند کو سزائے موت کی سزا کا دکھ قدرتی بات ہے، والدین کے لئے اولاد کا دکھ ناقابل بیان ہے۔ یہ ناچیز ایاز امیر کا کالم پڑھ رہا تھا کہ جنوری2003ء کی وہ سہ پہر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی جب مجھے ایڈیشنل سیشن جج نے سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ایسے موقع پر انسان اپنے حواس کو قابو میں نہ رکھے تو اس کا اپنے قدموں پر کھڑے رہنا دشوار ہو جائے۔والدہ مرحومہ اور بہنیں کمرہ عدالت میں موجود تھیں ۔ فیصلہ سننے کے بعد میں نے اپنی والدہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اماں جی بس ٹھیک ہو گیا ہے۔ پولیس گارڈ مجھے واپس بخشی خانے لے گئی جہاں حوالاتیوں اور قیدیوں کو پیشی کے بعد واپس جیل لانا ہوتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی والدہ اور بہنیں زاروقطار روتے ہوئے بخشی خانے آپہنچی۔ میں نے انہیں پرسا دیتے ہوئے کہا اماں جی میں تو زندہ ہوں آپ کیوں رو رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایاز امیر کا کالم پڑھتے میری آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی مجھے وہ سارا منظر یاد آگیا جب مجھے موت کی سزا ہوئی تھی۔ محترم ایاز امیر نے سزائے موت کی چکی کا ذکر کیا ہے۔ آج سے چار عشرے پہلے والی وہ سزائے موت نہیں رہی ہے اس زمانے میں نہ تو سزائے موت کے سیلوں میں کوئی ٹائیلٹ ہوتا تھا بلکہ ایک ٹین رکھا ہوتا تھا جس میں قیدی نے طہارت کرتے تھے۔ پہلے سزائے موت کے قیدیوں کو ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام چہل قدمی کے لئے سیلوں سے باہر آنے کی اجازت ہوتی تھی۔ یہ تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے سزائے موت کے قانون یعنی جیل مینوئل میں تبدیلی کر دی گئی جس کے بعد سیشن جج کی عدالت سے سزائے موت پانے والوں کو حوالاتی تصور کیا جانے لگا۔ دراصل سیشن جج سے سزائے موت کی سزا کا ریفرنس ہائی کورٹ کو بھیجا جاتاہے جب تک ہائی کورٹ سے موت کی سزا کنفرم نہ ہو مجرم کو حوالاتی تصور کیا جاتا ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ سزائے موت کے ان قیدیوں کو ہو رہا ہے جنہیں سیشن کورٹ سے سزائے موت ہوتی ہے۔ اب ایسے قیدی صبح گنتی کھلنے سے شام تک کھلے رہتے ہیں اور نہ انہیں اڑدی لگانی پڑتی ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو ہر روز اپنا سیل تبدیل کرنا ہوتا ہے جو موت کی سزا پانے والے قیدیوں کے لئے ایک بڑی اذیت ہوتی تھی۔ ایاز امیر کی خدمت میں عرض ہے شاہنواز امیر پورا دن کھلا رہے گا اور نہ اسے اڑدی لگانی پڑے گی بلکہ گھر والوں کے ساتھ فون پر بات چیت کے لئے اسے پی سی او پر بھی لے جایا جائے گا۔ ہاں وہ قیدی جن کی سزائے موت ہائی کورٹ کنفرم کر دے ان کے لئے قیامت ہوتی ہے انہیں چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے کھولا جاتا ہے اور ہر روز انہیں اپنا سیل بدلنا پڑتا ہے۔ قانون تو یہ بھی ہے جس wedlock میں بچے ہوں ایسے ملزمان کو موت کی سزا نہیں ہو سکتی۔ شاہنواز امیر کا وقوعہ گھر کا ہے البتہ براہ راست اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں ہے ۔ایاز امیر صاحب کو میرا مشورہ ہے شاہنواز کا کیس ہائی کورٹ میں لگوانے کی جلد ی نہیں کرنی بلکہ کیس کو اپنی باری پر لگنے کا انتظار کرنے میں بہتری ہے۔ گو میں سزائے موت میں بی کلاس میں کئی برس تک رہا ہائی کورٹ سے سزائے موت کنفرم ہونے کے بعد بہتر کلاس کے قیدیوں کو ہر روز سیل بدلنا نہیں پڑتا بلکہ ایک ہفتہ بعد سیل تبدیل کرنا ہوتا ہے۔2001 سے 2016 سزائے موت میں قیدیوں کی بڑی رش تھی یہ تو بھلا ہو جناب آصف سعید خان کھوسہ کا جنہوں نے اپنے دور میں برسوں سے التواء میں فوجداری اپیلوں کا فیصلہ کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد سزائے موت میں قیدیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔2015 ء کے آخر میں میرا کیس اچانک سپریم کورٹ میں لگ گیا۔ میرے مہربان وکیل جناب سردار محمد اسحاق خان کہنے لگے تم نے کس بینچ کے پاس کیس لگوایا ہے یہ تو بات ہی نہیں سنتے ۔ ان کی بات سن کر میری پریشانی میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ جمعرات کا روز تھا اس روز جن سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلیں سپریم کورٹ میں ہوں ملاقات کا دن ہوتا ہے۔ جس سیل میں بند تھا وہاں سگنل نہیں آتے تھے۔ ایک قیدی میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا تمہاری اپیل کا کیا بنا۔ جب میں نے اسے بتایا میرے ہاں تو سگنل نہیں آتے میں کہاں سے معلوم کروں۔ خیر وہ قیدی مجھے اپنے سیل میں لے گیا اور میرے چھوٹے بھائی کو فون کرکے میری اپیل کے فیصلے کا پوچھا تو اس نے بتایا سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا ہے۔ جس بینچ نے میرا کیس سنا اس میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد جو ابھی چیف جسٹس نہیں بنے تھے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان جو آج کل شرعی عدالت کے چیف جسٹس ہیں جب کہ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز چودھری تھے جو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے۔ سردار محمد اسحاق خان ایڈوکیٹ کی زندگی کا یہ آخری کیس تھا جس کے چند روز بعد وہ آخرت کو سدھار گے۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ امین۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ایاز امیر کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے اور ان کے فرزند کی رہائی کے لئے اسباب پیدا کر دے ( امین)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button