Ali HassanColumn

پو لیس سب سے زیادہ کرپٹ

تحریر : علی حسن
پاکستان میں سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ کون سا ہے؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنا کرایا ہوا سروے جاری کیا ہے۔ قومی کرپشن کا تناظر میں کئے گئے سروے کے نتائج کے مطابق پولیس کا ادارہ سب سے زیادہ کرپٹ ہو کر سامنے آیا ہے۔ کرپشن کے معاملے میں ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کا شعبہ دوسرے جبکہ کرپشن میں کمی کے ساتھ عدلیہ تیسرے نمبر پر ہے، جس کی شرح 13فیصد ریکارڈ کی گئی۔ تعلیم اور صحت چوتھے نمبر پر کرپٹ ترین ادارے قرار دئیے گئے ہیں، لوکل گورنمنٹ کا ادارہ پانچویں جب کہ ٹیکس اور لینڈ ایڈمنسٹریشن کا شعبہ 6فیصد کرپشن کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ سروے کے مطابق قومی سطح پر 75فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر و رسوخ ہے، جس سے کرپشن ہوتی ہے، 36فیصد شہری اکثریت کا خیال ہے کہ انسداد بدعنوانی کے اداروں کا کردار غیر موثر ہے۔ سروے کے مطابق 40فیصد نے قومی سطح پر کرپشن کی بڑی وجہ میرٹ کی کمی کو قرار دیا، کرپشن کو کچلنے کے اقدامات کے طور پر 55فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثے ہر سال ظاہر کئے جانے چاہئیں۔ این سی پی ایس کے مطابق 68فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن، اسٹیبلشمنٹ جیسے ادارے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ( باعث افسوس یہ ہے کہ انسداد کرپشن کے لئے قائم ادارے بھی کرپشن کا حصہ بن گئے ہیں ) یہ بات تو الم نشرح ہے کہ پاکستان میں کرپشن تمام سرکاری اداروں میں لازم ملزوم ہو گئے ہے۔ ایسے ادارے بھی جن میں کرپشن کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا لیکن اب تو وہ بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ کچھ نہیں کر سکتے تو تاخیر کا حربہ ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی درخواست گزار ان کی مٹھی گرم نہیں کرے گا تو دکھے ہی کھاتا رہے گا۔ بہت زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ذمہ دار افسران بدعنوان ماتحتوں کے ساتھ ملی بھگت رکھتے ہیں۔ ان سے پیسوں میں حصہ لیتے ہیں۔ در حقیقت افسران محکموں میں کرپشن کے پھیلائو کے ذمہ دار ہیں۔ بھاری تنخواہوں، تمام سہولتوں اور مراعات کے باوجود وہ رشوت کا تقاضہ کرنا وصول کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اکثر محکموں میں تو افسر اپنے ہی ماتحتوں کو انہیں پیسے دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بعض نے تو بولیاں لگائی ہوئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں ، سیاسی رہنمائوں اور ذمہ داران لا علم ہو لیکن وہ روک تھام کے لئے کوئی قدم اٹھانا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ وجہ کیا ہے وہ ہی اس سے بخوبی واقف ہوں گے۔
رائو انوار کراچی کے ایک متنازعہ شہرت رکھنے والے پولس افسر رہے ہیں۔ ویسے تو انہیں پولس مقابلے کرنے میں شہرت حاصل ہے لیکن ایک پختون نوجوان نقیب اللہ محسود کو پولس نے درندوں کی طرح پکڑ کر قتل کر دیا۔ نقیب اللہ کے قتل کے اسباب کے کئی واقعات سینہ گزٹ میں چلے تھے۔ رائو انوار کے بارے میں لوگ بے شمار نہایت قابل اعتراض قسم کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ رائو انوار اس مقدمہ میں بڑے ملزم قرار پائے تھے۔ سابق صدر آصف زرداری انہیں اپنا بچہ قرار دیتے تھے۔ انوار کی کرپشن کی داستانیں کراچی کے علاقے ملیر سے دبئی تک بکھری ہوئی ہیں۔ کراچی ملیر میں ایک بہت بڑی رہائشی سکیم میں لوگوں سے زمینیں زبردستی خالی کرانے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد کی جاتی ہے۔ ہوا یہ ہے کہ رائو انوار نے بعض چینل پر حال ہی میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری پر کراچی میں ’’ سسٹم ‘‘ چلانے کا الزام عائد کیا ہے اور کئی کھرب روپے کی بدعنوانیوں کا ذ مہ دار ٹھہرایا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ رائو انوار اس وقت آصف زرداری کے خلاف گفتگو کیوں کر رہے ہیں۔ اپنے محسن کو اسی انداز میں معتوب کر رہے ہیں جیسے چند سال قبل آصف زرداری کے گہرے دوست ذوالفقار مرزا نے الزامات کی بھر مار کی تھی۔ رائو انوار کی موجودہ مہم بھی کسی نہ کسی نے آصف زرداری کے خلاف چلوائی ہے۔ ویسے رائو انوار تازہ سلطانی گواہ ہے لیکن ایسے گواہوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ماضی میں اس قماش کے سلطانی گواہوں کا کیا حشر ہوا ہے، سب ہی آگاہ ہیں۔ ویسے تحریک انصاف میں شامل کئی لوگ عمران خان کے خلاف الزامات لگا کر اپنی نسل کو پتہ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ عمران خان کے آگے پیچھے چلتے تھے۔ کرپشن کی داستانیں اس ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کے پی کے کے ایک سابقہ چیف سیکرٹری اور حالیہ ایک وفاقی سیکرٹری کے گھر گزشتہ ایک رات چوری کی ایک واردات میں ڈاکو دس کروڑ ڈالر، پینتالیس کروڑ پاکستانی روپیہ اور دو سو کلو سونا لے کر فرار ہوگئے۔ متاثرہ شخص پولس میں رپورٹ کرانے پر آمادہ نہیں ہے۔ رپورٹ تو اس خوف سی درج نہیں کرائی جارہی ہے کہ یہ افسر کیسے ثابت کرے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا تھا۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا الزام ہے کہ 3پارٹیوں نے ملک میں کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پشاور میں اپنے ایک خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ ملک میں 2کروڑ 50لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، ملک میں 10کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود قومی اسمبلی میں غریب کے لیے قانون سازی نہیں ہوتی۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کسی کی ذاتی زندگی تباہ نہیں کر رہے، نئی نسل کو سچائی سے واقف کرنا ہے، ہمارا کارکن گالم گلوچ اور جھوٹ کا حصہ نہیں بنے گا۔ امیرِ جماعت اسلامی نے کہا کہ آئندہ حکومت عوام کے ووٹ پر بنے گی، ملک میں آئندہ حکومت لاڈلے اور سپر لاڈلے کی نہیں ہو گی، اس وقت ملک میں 2خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری ہے، ان 2خاندانوں نے ملک کے اداروں کو تباہ کیا ہے۔ ( یہ دو خاندان ہی کیا، اور بھی بہت سارے خاندان پاکستان کی معاشی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ لوگوں سے ان کی دولت کے ذرائع معلوم کئے جائیں تو سب ہی بغلیں جھانکیں گے) انہوں نے تجویز دی کہ 8فروری تک سوشل میڈیا کی طاقت کو پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے استعمال کرنا ہے۔، الیکشن کے دن کو یوم الحساب بنانا ہے، 8فروری کو طوفان الاقصیٰ کی طرح ان کو شکست دینی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button