ColumnImtiaz Aasi

چیئرمین نیب کا عزم

امتیاز عاصی
سیدنا عمر فاروقؓ کا معمول تھا جب کسی کو کوئی منصب دیتے تو اس کی ملکیت میں جو کچھ ہوتا وہ اس سے معلوم کر لیتے۔جب کبھی وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتا اس کے پاس معمول سے زیادہ اشیاء ہوتی تو اسے ضبط کرکے بیت المال میں جمع کار دیتے۔حضرت ابوہریرہؓ جب بحرین کی گورنری سے واپس لوٹے تو کندھے پر بھاری گٹھڑی تھی۔ سیدنا حضر ت عمر فاروقؓ نے دریافت کیا تو بتایا کہ یہ دس ہزار درہم انہوں نے کاروبار کے ذریعے کمائے ہیں اور ان کے ذاتی ہیں لیکن سیدنا عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ وضاحت قبول نہیں کی اور یہ کہہ کر وہ دس ہزار درہم ضبط کرکے بیت المال میں جمع کرا دیئے کہ آپ کو بحرین میں کاروبار کرنے اور ہدیئے وصول کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا تھا۔ عہدفاروقی کی یہ چھوٹی سے مثال ہے اگر ہم مسلمان ان پر عمل پیرا ہوتے تو احتساب کے ادارے کبھی تنقید کی زد میں نہیں آتے۔ نیب سے پہلے صدر فاروق لغاری اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ادوار میں احتساب کے ادارے قائم کئے ۔فاروق خان لغاری نے قومی احتساب بیورو کی ذمہ داری عدلیہ کے ایک جج کے سپردکی جب کہ نواز شریف نے اپنے دست راست اور قریبی عزیز سنیٹر سیف الرحمان کے حوالے کی۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرکے عوام سے کھلواڑ کیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ وجود میں آیا تو عوام کو امید تھی قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا۔پرویز مشرف نے نیب کی سربراہی ایک فوجی جنرنیل کے سپرد کی ۔کوئی مانے نہ مانے فاروق لغاری اور نواز شریف دور میں قائم ہونے والے احتساب کے اداروں کی کارکردگی کے مقابلے میں مشرف دور میں قائم ہونے والے نیب کی کارکردگی بدرجہا بہتر رہی۔غریب عوام کو پلاٹوں کا جھانسہ دے کر لوٹنے والوں سے اربوں روپے واپس کراکے متاثرین کو دیئے گئے۔بے شمار سرکاری افسران سے پلی بارگین کے ذریعے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس کرائی گئی وغیرہ ۔پی ڈی ایم کے دور میں ایک راست باز پولیس سروس آف پاکستان کے سابق افسر آفتاب سلطان کو نیب کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جنہوں اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ۔آخر کوئی وجہ تو ہوگی ورنہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے بعد کوئی چند روز میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔نواز شریف کی جماعت کے سنیئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو سرے سے نیب کے ادارے کی حق میں نہیں ہیںان کا موقف ہے نیب کے ہوتے ہوئے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ نگران حکومت نے نیب کے چیئرمین کے عہدے پر ایک سابق جنرل جناب نذیر احمدبٹ کو فائز کیا ہے۔ نئے چیئرمین نے منصب سنبھالنے کے بعد محسوس کر لیا ہے نیب میں درج ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار غیر مناسب اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں پہلے اقدام کے طورپر چیئرمین نیب نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند روز قبل چیف سیکرٹری پنجاب اور صوبے میں خدمات سرانجام دینے والے بیوروکریٹس کے ساتھ ایک نشست کرکے انہیں اعتما د میں لیتے ہوئے اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے مستقبل قریب میں مقدمات درج ہونے سے قبل چیف سیکرٹری کے ساتھ نشست میں ایسی شکایات کا جائزہ لینے کے بعد مقدمات درج کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ چیئرمین نیب نے ہائوسنگ سوسائیٹوں کے ہاتھوں لٹنے والے عوام کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لئے ہائوسنگ سوسائیٹوں کی تمام ٹرانزیکشن بنکوں کے ذریعے کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مبینہ فراڈ کرنے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی دھوکہ دہی سے عوام کو بچایا جا سکے۔ پنجاب کی بیورو کریسی نے چیئرمین نیب کو بتایا جب کابینہ فنڈ کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کے باوجود فنڈ خرچ کرنے کو انکوائریاں لگا دی جاتی ہیں۔ جہاں تک بیورو کریسی کا یہ موقف ہے کابینہ کی منظوری سے ملنے والے فنڈ خرچ کرنے پر انکوائریاں شروع ہو جاتی ہیں اپنی جگہ درست ہے ۔ جن فنڈز کی منظوری دے دیتی ہے انہیں قانون اور
ضابطے کے مطابق ہی خرچ کیا جا سکتا ہے کابینہ کی منظوری سے مراد یہ نہیں لی جا سکتی جن فنڈز کی منظور ی کابینہ نے دے دیتی ہے انہیں جب اور جیسے چاہیں خرچ کریں ؟ ہاں یہ ضرور ہے فنڈ خرچ کرنے کے بعد ایک طریقہ کار کے تحت خرچ ہونے والی رقم کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے جس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں محکمے موجود ہیں۔ اگر کسی افسر نے خلاف ضابطہ فنڈ خرچ کئے ہوں تو ان کے خلاف آڈٹ پیراگراف بنائے جاتے ہیں جنہیں پبلک کائونٹس کمیٹی کے روبرو لایا جاتا ہے۔ جہاں کہیں فنڈز کے خرچ کرنے میں Glaringبے قاعدگیاں پائی جاتی ہوں ان کے خلاف نیب میں مقدمات ضرور در ج ہونے چاہئیں۔ ہم چیئرمین نیب کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ مستقبل میں کسی افسر کا میڈیا ٹرائل نہیں ہوگا جو احسن اقدام ہے۔ تاہم ان تمام تر باتوں کے ساتھ ہم چیئرمین نیب سے توقع کرتے ہیں وہ کرپشن میں ملوث خواہ کوئی بھی ہو ان پر پکا ہاٹھ ڈال کر ان کے خلاف ٹھوس شواہد کی بنیادوں پر مقدمات درج کریں گے ورنہ اگر ماضی کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے خلاف ٹھوس شواہد کے بغیر مقدمات بنتے رہے تو جس مقصد کے لئے اربوں روپے خرچ کرکے نیب کا ادارہ قائم کیا گیا ہے اس کا مقصد بے سود ہوگا۔ عوام یہ بھی توقع کرتے ہیں نیب جن کے خلاف مقدمہ درج کرے گا حکومت کے خاتمے کے بعد عدالتوں میں یہ کہنے سے گریز کرے گا ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے یا ملزم نیب کو درکار نہیں ہے۔ جناب جنرل ( ر) نذیر احمد بٹ کے ہوتے ہوئے عوام یہ توقع کرتے ہیں ان کے دور میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی اور نہ کرپشن کرنے والوں کو چھوڑ جائے گا خواہ ان کا تعلق کسی جماعت سے ہو ورنہ یہاں تو عجیب تماشا لگا ہوا ہے ایک حکومت مقدمہ درج کرتی ہے تو حکومت بدلنے کے بعد مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوتا ہے حالانکہ جس حکومت کے دور میں حکومت مقدمہ درج ہو اسی کے دور میں اس کا فیصلہ ہونا چاہیے لہذا نئے چیئرمین نیب کو ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے اپنے ادارے کو چلانا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button