Column

سکھ آتا نظر نہیں آتا

سیدہ عنبرین
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کیلئے چلائی جانے والی تحریک، جسے عدلیہ بحالی تحریک بھی کہا جاتا ہے زور شور سے جاری تھی۔ عدلیہ تو بحال تھی البتہ معاملہ ایک شخص کا نہیں دو شخصیات کا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو کمزور کر کے مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا جبکہ ان کا پسندیدہ اور چنا ہوا شخص ڈبل گیم کرتے ہوئے پس پردہ متحرک تھا۔ وہ جنرل مشرف سے احکامات لیتا نظر آتا تھا دوسری طرف افتخار چودھری کو پیغام بھجواتا تھا’’ ڈٹے رہو‘‘ جنرل مشرف مستعفی ہو گئے، افتخار چودھری بحال ہو گئے حالانکہ وہ خود بھی اس تحریک میں بے حال ہو چکے تھے لیکن چلتے رہے آگے بڑھتے رہے کیونکہ طاقت کا مجسمہ ان کے ساتھ تھا اس تحریک کی ہر منزل پر افتخار چودھری آئینی تقریر جبکہ اعتزاز احسن سیاسی تقریر کرتے تھے دونوں کے پیچھے ایک نوجوان وکلا یونیفارم میں ہمیشہ نظر آتا تھا یہ ان کا نائب اور دست راست بیرسٹر تھا جس کی شکل اعتزاز احسن سے بہت مشابہ تھی، اکثر اسے اعتزاز احسن کا بیٹا سمجھتے تھے سینئر وکلاء کے جونیئر ان کے بیٹوں برابر ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سینئر ڈاکٹرز، پروفیسر صاحبان کے جونیئر بھی ان کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، جونیئر بھی اپنے سینئرز کا اسی طرح ادب و احترام کرتے ہیں جس طرح وہ اپنے والدین کا۔ اعتزاز احسن کے ساتھ ہر لمحہ نظر آنے والا نوجوان بیرسٹر گوہر علی تھا جس نے بعد ازاں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور بہت کم ووٹوں سے شکست کا منہ دیکھا، بعد ازاں انہوں نے مکمل توجہ اپنی لیگل پریکٹس پر مرکوز رکھی۔
طویل عرصہ بعد وہ نیازی صاحب کی وکلا ٹیم میں شامل ہوئے پھر اس کے سربراہ بنا دئیے گئے۔ اب وہ انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے پی ٹی آئی کے چیئرمین بن چکے ہیں۔ گوہر علی اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ اسے قانونی میدان میں ایک شجر سایہ دار ملا لیکن محنت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل مشرف کے خلاف جو کچھ بھی کہنا ہوتا تھا اعتزاز احسن ہی کیا کرتے تھے گوہر علی کو کسی نے بولتے نہ سنا تھا لیکن جنہوں نے عدالت میں بولتے دیکھا اور سنا ہے وہ راوی ہیں کہ گوہر علی جب بھی بات کرتے ہیں ڈھنگ کی بات کرتے ہیں وہ جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہی شخص کی اس عہدے پر ضرورت تھی جو ہر معاملے میں سینگ پھنسانے کی بجائے بگڑے اور الٹے سرے معاملات کو سیدھا کرے۔ گوہر علی کا انتخاب چیلنج کر دیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ پرانی پالیسی پر گامزن ہیں یعنی ’’ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘۔ اس کھیل ہی کھیل میں کھیل تمام ہو جائے گا جیسے کوئی کہیں چیلنج نہیں کریگا کیونکہ کھیل اس کھیل کے مروجہ اصولوں اور نظریہ ضرورت کے تحت کھیلا جائیگا۔
بیرسٹر گوہر علی کی ایک اور خوش قسمتی یہ ہے کہ ان پر زنانہ یا مردانہ الزام تو کیا کسی بھی قسم کا درمیانہ الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ وہ پٹھان ہیں مگر بے داغ کردار کے مالک ہیں یہی وجہ ہے مخالف سیاسی جماعتوں کو ان کا چیئر مین پی ٹی آئی بننا ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنے اپنے مہرے تیار کر رکھے تھے جنہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھاتے رہے لیکن کسی اور جماعت کی خواہش کے مطابق ان کا منظور نظریہ منصب حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب سب پریشان ہیں پنچنگ پیڈ کس کو بنائیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ پارٹی کے پرانے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو چیئر مین بنایا جائیگا جس کے بعد نیا سکرپٹ میدان میں اتارا جائیگا کہ حق تو فلاں کا تھا لیکن فلاں کودے کر زیادتی کی گئی جس سے کارکنوں میں بددلی پھیل گئی ہے۔ مخالفین کا ایک دھڑا صدق دل سے چاہتا تھا کہ علیمہ نیازی یا عظمیٰ نیازی میں سے کسی ایک کو پارٹی چیئر پرسن بنا دیا جائے تاکہ پھر وراثت کی سیاست کو آگے بڑھانے کا راگ الاپنے میں آسانی ہو اور ان کی اپنی طرف اس حوالے سے آنے والے تیروں کو روکنے کیلئے کوئی بہانہ ہاتھ آجائے۔ ایک اور خواہش تھی کہ پارٹی کا چیئرمین مراد سعید یا فیصل جاوید جیسی کسی شخصیت کو بنا دیا جائے تاکہ پھر کردار کشی ایک نئے اور منفرد انداز میں شروع کی جا سکے۔ مخالفین کا کوئی ایک خواب مرضی کی تعبیر نہیں لا سکا۔
عدالتوں میں دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مقدمات آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں ایک کو سزا ہی سزا جبکہ دوسرے کو جزا ہی جزا لکھی جارہی ہے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا تاوقتکہ وقت نہیں بدلتا۔
سیاسی اور قانونی جزائوں سے جھولی بھرنے والی سیاسی جماعت صدق دل سے انتخابات نہیں چاہتی اسے خوب معلوم ہے کہ پہلے اس کے اپنے پانچ برس کی حکومت پھر پی ڈی ایم حکومت نے اس کے پلے کچھ نہیں چھوڑا جو دراصل اس کی ہی حکومت تھی اب عوام کے پاس جائے تو کس منہ سے جائے۔ اب وہ جو بھی وعدہ کریں گے جو بھی سبز باغ دکھائیں گے عوام منہ پر کہہ دیں گے ’’ یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔ ایٹمی دھماکوں اور موٹر وے کا جھنجھنا پرانا ہوا۔ شیخ رشید پول کھول گئے کہ ہم ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کابینہ نے پے در پے اجلاس بلائے جس میں ان کے علاوہ جناب گوہر ایوب خان اور راجہ ظفر الحق نے بھر پور انداز میں کہا کہ ہمیں ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں۔ سیئر صحافی جناب مجید نظامی آن ریکارڈ ہیں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا میاں صاحب آپ نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے آگے بڑھانے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ویڈیو انٹرویو موجود ہیں جس میں وہ واضع طور پر کہتے نظر آتے ہیں کہ نواز شریف صاحب تو پٹاخہ بھی نہیں پھوڑ سکتے تھے ایٹمی دھماکے فوج نے کرائے۔
موٹر وے بنا دیا گیا کیا بہت اچھا ہو گیا لیکن اس سے زیادہ اچھا تھا کہ جی ٹی روڈ کو چھ لین کر دیتے اور اس کے ساتھ بلٹ ٹرین کا ٹریک بچھا دیتے جس پر کم خرچ آتا اور فاصلہ بھی نہیں بڑھنا تھا۔ یہ فیصلہ قوم آج تک بھگت رہی ہے موٹر وے پر ٹال ٹیکس ہر سال بڑھایا جاتا ہے گویا جو بھی موٹر وے پر سفر کر تا ہے وہ اس سہولت کیلئے ہر مرتبہ رقم ادا کرتا ہے تو پھر احسان کیسا۔۔ موٹر وے پر سفر کی سہولت دینے کا وقت آیا تو ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کا ٹال ٹیکس معاف ہو گیا اور اس کا مزید بوجھ ایک مرتبہ پھر عام آدمی پر ڈال دیا گیا جو جی ٹی روز کی نسبت زیادہ فاصلہ ہونے پر پہلے ہی اسلام آباد تک جانے کیلئے اضافی پٹرول کاسٹ برداشت کر رہاہے۔
ری سہی کسر تین مرتبہ کے اقتدار میں آئی ٹی پیز کے معاہدوں نے نکال دی، مافیا کی جیبیں بھرنے کیلئے معاہدہ کیا گیا کہ ہم بجلی خریدیں نہ خریدیں آپ کو کپسیٹی چارجز کی مد میں رقم ادا کرنے کے پابند ہونگے۔ اب یہ معاہدے ہماری جان چھوڑیں گے نہ ہماری زندگیوں میں کوئی سکھ آئیگا، چوتھی مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے رالیں ٹپک رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button