جنید جمشید کو جدا ہوئے سات برس بیت گئے

رفیع صحرائی
بعض لوگ قسمت کے بڑے دھنی ہوتے ہیں۔ زندگی کے جس شعبے میں بھی چلے جائیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خوش قسمت ترین ہوتے ہیں کہ ایک سے زائد شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور سبھی شعبوں میں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی مثال دی جا سکتی ہے جو کرکٹ میں اس قدر عروج تک پہنچے کہ جس کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے کی طرف رجحان ہوا تو شوکت خانم جیسا عظیم الشان پراجیکٹ مکمل کر دیا، تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے تو نمل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آ گیا، سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو وزارتِ عظمیٰ جیسے سب سے بڑے منصب پر پہنچ گئے۔
پامسٹری اور آسٹرالوجی کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں دماغ کی دو لکیریں ہوتی ہیں وہ اپنی فانی زندگی میں ایک سے زائد جنم لیتا ہے، اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ایسا شخص ایک سے زائد شعبوں میں زبردست کامیابی اور شہرت سمیٹتا ہے اور اس طرح ایک ہی زندگی میں کئی جیون جی لیتا ہے۔
یہ توعلم نہیں کہ ایک وقت کے لیجنڈ گلوکار اور فانی زندگی کے دوسرے جنم میں عالمی شہرت یافتہ نعت خواں کہلانے والے جنید جمشید کے ہاتھ میں بھی دماغ کی دو لکیریں تھیں یا نہیں مگر انہوں نے ان دونوں شعبوں میں بے پناہ شہرت اور عزت سمیٹی جبکہ تیسرے شعبے میں وہ ایک کامیاب بزنس مین کے روپ میں سامنے آئے۔
جنید جمشید 3ستمبر 1964کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور سے انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ اپنے والد کی خواہش اور نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان ایئر فورس جوائن کی، ان کی بڑی خواہش تھی کہ ایف 16 اڑائیں مگر نظر کی کمزوری آڑے آئی اور انہیں پاکستان ایئر فورس کو خیرباد کہنا پڑا۔ وہ بڑے متحرک نوجوان تھے، ہمہ وقت کچھ کرنے کی دُھن ان کے ذہن پر سوار رہتی تھی۔ انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا میوزیکل گروپ ’’ وائٹل سائنز‘‘ بنایا اور بطور لیڈنگ سنگر پرفارم کرنے لگے۔
جنید جمشید نے 1987میں ملی نغمہ ’’ دل دل پاکستان۔ جاں جاں پاکستان‘‘ ریلیز کیا اور اس گیت نے انہیں راتوں رات سپر سٹار بنا دیا۔ اس ملی نغمے نے قومی ترانے کی حیثیت اختیار کر لی، چھوٹے بڑے سب کی زبان پر یہی نغمہ تھا۔ ہر محفل اور ہر تقریب میں یہ گیت گایا جانے لگا۔ جنید جمشید کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ پورے پندرہ سال تک جنید پاپ سنگر کی حیثیت سے ٹاپ پر براجمان رہے۔ ان سے متاثر ہو کر بہت سے پاپ سنگنگ گروپ معرضِ وجود میں آئے مگر جو پذیرائی جنید جمشید کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔
پاپ سنگر کے طور پر ان کے البم وائٹل سائنز ون، وائٹل سائنز ٹو، اعتبار، ہم تم، تمہارا اور میرا نام، اس راہ پر، دی بیسٹ آف جنید جمشید اور دل کی بات کے نام سے ریلیز ہوئے۔ یہ سبھی البم کامیاب رہے اور جنید کے حصے میں وہ شہرت آئی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
پاپ سنگر کے طور پر انتہائی کامیاب کیریئر رکھنے والے جنید جمشید کی زندگی میں 2002میں اچانک انقلاب آ گیا۔ شاید قدرت کی طرف سے بے پناہ شہرت دے کر انہیں اس انقلاب کے لیے ہی تیار کیا جا رہا تھا۔ جنید اپنی کار میں میوزیکل شو کرنے کے لیے گھر سے نکلے، کراچی ڈیفنس کے علاقے میں ان کی کار کی ٹکر سے ایک کتا جاں بحق ہو گیا، انہوں نے کار سے اتر کر سڑک سے ہٹایا اور قریبی خالی پلاٹ میں دفنا دیا۔ تبھی اس نے اللّٰہ کو گواہ بنا کر میوزک کی دنیا چھوڑنے کا وعدہ کر لیا۔ ان کے دل اور دماغ نے ایک ساتھ پلٹا کھایا تھا۔ ان کا رجحان دین کی طرف ہو گیا۔ جنید نے اچانک گلوکاری کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے لیے انہیں کافی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا کیونکہ انہیں بہت سے آرگنائزرز سے آئندہ دو سال تک کے طے شدہ پروگراموں کے لیے ایڈوانس میں لیے گئے پیسے واپس کرنا پڑے مگر یہ ان کے لیے گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ انہوں نے اس راستے کا انتخاب کر لیا تھا جس پر چلنے والا کبھی گھاٹے میں رہتا ہی نہیں۔
گلوکاری کو خیر باد کہنے کے بعد جنید جمشید نے اپنی زندگی دینِ اسلام کے فروغ اور تبلیغ کے لیے وقف کر دی اور پھر دنیا نے انہیں بطور مبلغ، داعی اور نعت خواں دیکھا۔ ان کا حمدیہ اور نعتیہ کلام 2005 میں ’’ جلوہ جاناں‘‘ 2006میں دوسرا البم ’’ محبوبِ یزداں‘‘ 2008 میں ’’ بدرالدجا‘‘ 2009میں ’’ بدیع الزماں‘‘کے نام سے ریلیز ہوئے۔ اس دوران جنید جمشید نے اپنا بزنس شروع کیا جس کی شاخیں آج پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت ڈالی جس کا کئی فیشن ڈیزائنر صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
بلا شبہ جنید جمشید ایک متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے پر گئے اور 7دسمبر 2016کو اسلام آباد واپسی کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ 661میں سوار ہوئے۔ یہ فلائٹ راستے میں فنی خرابی کا شکار ہو گئی اور حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گئی تھی جس میں عملے کے پانچ ارکان سمیت 48افراد اللّٰہ کے حضور پیش ہو گئے۔
جنید جمشید اپنی زندگی کے آخری تین سال اے آر وائی رمضان ٹرانسمشن کا مستقل حصہ رہے، اس کے علاوہ دیگر مذہبی پروگراموں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ قدرت کو شاید انہیں بلانے کی بہت جلدی تھی اسی لئے ایک مختصر سی زندگی میں وہ کئی زندگیاں جلدی جلدی جی گئے اور اپنی یادوں کے نقوش چاہنے والوں کے دل و دماغ پر ثبت کر گئے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر انہوں نے چترال سے اپنی زندگی کی آخری یادگار تصویر پوسٹ کی جس کے کیپشن میں انہوں نے لکھا ’’ میں اپنے دوستوں کے ساتھ جنت میں ہوں اور تبلیغ کا کام کر رہا ہوں‘‘
جنید جمشید کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2007ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا اور 2014ء میں انہیں دنیا کی 500با اثر مسلم شخصیات میں بھی شامل کیا گیا۔