Columnمحمد مبشر انوار

ووٹ کی عزت

محمد مبشر انوار( ریاض)
شنید ہے کہ آٹھ فروری 2024ء کو وطن عزیز میں عام انتخابات منعقد ہوں گے لیکن اس کے باوجود، شکوک و شبہات کی پرچھائیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ بیرونی عوامل پر نظر دوڑائیں تو بے یقینی کی وجہ ہی سمجھ نہیں آتی اور اگر اندرونی معاملات و دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی ایسی صورتحال موجود ہے کہ آخری لمحات میں بھی انتخابات کا انعقاد ملتوی ہو سکتا ہے یا جمہوری عمل کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ بیرونی عوامل میں عالمی مالیاتی ادارے، جن کے قرضوں کے بوجھ تلے ریاست پاکستان بری طرح دبی ہوئی ہے، ان کی اولین شرط ہی یہی ہے کہ پاکستان میں انتخابات مقررہ وقت پر ہوں اور دوسری طرف، چند امریکی سینیٹرز کا ضمیر جاگ گیا ہے اور وہ امریکی کانگریس میں قرارداد لے آئے ہیں کہ پاکستان مین جمہوری عمل بعینہ اپنی روح کے مطابق روبہ عمل نہیں۔ زیادہ مناسب تو یہ کہنا ہوگا کہ جو معیار امریکہ نے جمہوریت کے طے کر رکھے ہیں، پاکستان میں جمہوری عمل مبینہ طور پر اس طرح چلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا، لہذا ان سینیٹرز کی طرف سے قرارداد آنا، پاکستانی ارباب اختیار کے لئے قابل غور مسئلہ ہے۔ ویسے تو جمہوری عمل لمحہ موجود میں بھی اپنی حقیقی روح کے مطابق رو بہ عمل نظر نہیں آتا اور ہر چند کہیں کہ ملک میں عوامی نمائندے اقتدار میں موجود ہیں، سویلین کی حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ پاکستان اس صورتحال میں صرف آج دوچار نظر نہیں آتا بلکہ اس کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو جمہور پاکستان ابتداء سے ہی اس سے دوچار نظر آتے ہیں، بارہا اس امر کا اظہار ہو چکا ہے کہ جب بھی کوئی عوامی حمایت یافتہ سیاسی قوت منظر عام پر آتی ہے، اس کو منظر نامے سے بال کی طرح نکال باہر پھینکا جاتا ہے۔ عوامی رائے کی اہمیت نہ کل کسی کو تھی اور نہ آج کسی کو ہے، اہمیت ہے تو بس اپنے’’ اختیار کلی‘‘ کی، کہ جس سے باہر جانے والی ہر طاقت کا انجام دردناک ہے۔
مجوزہ انتخابات، اپنی ہیئت میں اس طرح منفرد نظر آتے ہیں کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت کا تعین قبل از انتخاب ہی ہو چکا ہے اور تقریباً ہر قابل ذکر طبقہ اس پر قائل نظر آتا ہے کہ مجوزہ انتخابات کا انعقاد، صرف ایک دکھاوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ن لیگ کے اہم رکن حفیظ اللہ نیازی، واضح کہہ چکے ہیں کہ جو سیاسی عمل اس وقت روبہ عمل ہے، اس میں انتخابات کروانے اور اس مشق کی قطعی ضرورت نہیں بلکہ براہ راست میاں نواز شریف اور ان کی منتخب کردہ افراد کو اقتدار سونپ دیا جائے کہ یہ کیسا سیاسی عمل ہے کہ ملک کی ایک مقبول ترین جماعت کی قیادت اسیر ہے، اس کے ووٹرز ؍ سپورٹرز کو ہراساں کیا جا رہا ہے، سیاسی عمل کے لئے انہیں جگہ میسر نہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ ملک میں انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے؟ مقدمات کی بھرمار کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، تحریک انصاف میں جمہوری عمل پر قوانین کا نفاذ ایسے کروانے کی کوشش میں ہے کہ جیسے پاکستان میں کسی بھی بے ضابطگی پر ہمیشہ معترض رہا ہو اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط سے روگردانی کر سکے۔ جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے تحریک انصاف کے، کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے لئے قوانین کا نفاذ اس شدت سے کبھی نہیں کیا گیا بلکہ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ صرف نظر سے کام لیا ہے۔ تاہم تحریک انصاف، جس سعی مسلسل سے اس مقام تک پہنچی ہے، وہ کسی بھی قسم کا رسک اٹھانے کے لئے تیار نظر نہیں آتی، اور الیکشن کمیشن کے تمام تر خصوصی اقدامات ؍ عنایات پر، اپنے تحفظات کے باوجود راستے نکال کر، عمل درآمد کرتی نظر آ رہی ہے، تحریک انصاف کا واضح مطمع نظر اس وقت صاف و شفاف انتخابات کو مقررہ وقت پر انعقاد ہے۔ تحریک انصاف کی کتر برید میں جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، جس طرح کارکنان کو استحکام پاکستان پارٹی میں ہانکا جا رہا ہے، وہ کسی بھی طرح سیاسی و جمہوری عمل کو مستحکم و مضبوط نہیں کر رہا اور کوئی بھی سیاسی طالبعلم اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ تسلیم کہ 2018کے انتخابات میں بھی یہی مشق کی گئی تھی، جسے اس وقت بھی سراہا نہیں گیا لیکن گزشتہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کا حکومت میں آنا اور بعد ازاں رجیم چینج کے بعد عوام کے دلوں میں گھر کر جانا، سٹیٹس کو، قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور وہ ہر صورت اس عوامی حمایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ تحریک انصاف اور ن لیگ کی، خاص نرسری کے بعد عوام حمایت کا موازنہ کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ ن لیگ ایک عرصہ تک، ’’ خصوصی انتخابی اقدامات‘‘ کے باعث عددی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں، وہ خصوصی اقدامات غیر موثر نظر آتے ہیں۔ بالعموم انتخابی سروے، تحریک انصاف کی واضح اکثریت کی نشاندہی کر رہے ہیں حتی کہ لاہور جیسے شہر میں بھی عوام منتظر ہے کہ کب ن لیگ کے امیدوار، انتخابی مہم میں ان سے رابطہ کریں اور ان کی طبیعت صاف کی جائے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے امیدواران کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے، عوام ان کو حلقے میں آنے سے خود روک رہی ہے، بس التجا ہے تو صرف اتنی کہ تحریک انصاف کو انتخابی عمل میں بلے کے نشان پر انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی جائے، باقی کام عوام خود کر لے گی، کیا الیکشن کمیشن، یہ رسک اٹھانے کے لئے تیار ہے یا اسے اس کی اجازت مل جائیگی؟
سائفر کیس، توشہ خانہ اور نو مئی جیسے واقعات میں تحریک انصاف کی اعلی قیادت کے لئے شکنجہ کسنے کی بھرپور کوششیں اور توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان مقدمات میں جان نظر نہیں آتی اور تمام تر کوششیں کرنے کے باوجود، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس تمام مشق کا مقصد اتنا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو زیر کر لیا جائے، اس میں جو ترجیحات ہیں، ان سے سب واقف ہیں۔ اولا یہ کہ جو حد بندی طاقتور کریں، اس کے مطابق اپنی سیاست کی جائے، دوئم جلاوطنی اختیار کر لی جائے، سوئم یہ کہ ان مقدمات میں الجھے الجھے اپنی باقی ماندہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزار لی جائے۔ علاوہ ازیں! ایسی صورتحال بنائی جائے کہ بالفرض عمران خان کو کوئی ریلیف عدالتوں کی طرف سے مل بھی جائے، جس کا فی الوقت رتی برابر امکان نہیں، تو اسے بھی ڈیل ظاہر کیا جائے اور یوں عمران خان کے بیانئے کو توڑا جا سکے، تاحال اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ عوامی حمایت میں عمران خان اپنے حریفوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عمران خان کی ذاتی زندگی، گو کہ ایک عوامی شخصیت کی ذاتی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، کو نشانہ بناکر اسے عوام میں غیر مقبول کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں لیکن نتیجہ خواہشات کے برعکس ہے۔ عوام ببانگ دہل کہتی ہے کہ عمران خان نے کبھی اپنی ماضی کی ذاتی زندگی کے متعلق پارسائی کا دعوی ہی نہیں کیا، بلکہ اس نے ہمیشہ اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ماضی میں وہ دین سے دور رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ کریم جب راہ ہدایت نصیب کرے، یہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں، اسے اللہ نے ہدایت عطا کر دی ہے۔ بہرحال حقیقت یہی ہے کہ عوام کسی بھی صورت عمران کا ساتھ چھوڑنے کے لئے قطعی تیار نہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ن لیگی قیادت کی عمران خان کے خلاف تمام تر خواہشات تسلیم کر لینے کے باوجود، عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور عوام کسی صورت اسے چھوڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال سے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے، سخت پریشان نظر آتے ہیں اور درون خانہ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ اگر صورتحال یہی رہی تو، ن لیگ کی قیادت اپنے تمام مقدمات میں بریت حاصل کرنے باوجود، انتخابی عمل کا حصہ بننے کی بجائے، اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔ واللہ اعلم! ان خبروں میں کتنی صداقت ہے لیکن جمہوری عمل میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا، کے باوجود اگر انتخابی عمل میں ووٹ اپنے بکس کی بجائے فریق مخالف کے بکس سے نکل آئیں اور ماضی کی طرح، ایسا کوئی انتظام بھی نہ ہو کہ ’’ ووٹ کو عزت دینے‘‘ کے لئے اسے اپنے بکس میں لایا جا سکے تو ایسے انتخابات کا کیا فائدہ؟ اگر طاقتور ووٹ کو مرضی کے مطابق عزت نہیں دلوا سکتے، تو پھر ایسی ووٹنگ کا بائیکاٹ ہی ترجیح ہو گی کہ اگر تحریک انصاف انتخابی عمل کا حصہ بنی تو بظاہر لگتا یہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی ن لیگ سیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کر پائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button