Ali HassanColumn

پرانے سیاست دان اور سیاست

علی حسن
ایسا لگتا ہے کہ بلاول زرداری عام انتخابات کے دوران ایس صورت حال پیدا کر دیں گے کہ جوان اور عمر رسیدہ سیاست دان آمنے سامنے ہوں گے۔ چترال میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ جس سمت میں ہمارا ملک چل رہا ہے اس سے مسائل میں کمی نہیں اضافہ ہو گا، پرانے سیاست داں جس طرح سے سیاست کر رہے ہیں عوام کی تکالیف مزید بڑھیں گی۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پرانے سیاستدانوں سے جان چھڑائیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بزرگوں کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے، پرانے سیاستداں سیاست چھوڑیں، گھر یا مدرسے میں بیٹھ جائیں اور دعا کریں، پرانے سیاستداں کتنا کام کر سکیں گے؟ یہ آنے والے کل کی نہیں سوچتے، اعتراض پرانے سیاستدانوں پر نہیں بلکہ 70 سال پرانی سیاست کرنے پر ہے، پرانے سیاستدانوں کی70سال پرانی سیاست کرنے سے ملک کو نقصان ہوا ہے، پاکستان کی 70فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ بلاول بھٹو کی یہ بات یقینا عمر رسیدہ اور معمر سیاست دانوں کو کسی حالت میں پسند نہیں آئے گی۔ اس تجویز پر ان کے والد آصف زرداری سمیت سب ہی بھنوئیں تنے گی۔ آصف زرداری نے تو اپنی رد عمل میں کہا ہے ’’ شریک چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بلاول ابھی تربیت یافتہ نہیں، کچھ وقت لگے گا، بلاول مجھ سے زیادہ ٹیلنٹڈ ہے، لیکن تجربہ تجربہ ہے، بلاول سب کو بابے کہہ رہے ہیں، صرف مجھے نہیں کہہ رہے، نئی پود کی سوچ ہے، ہر گھر کی سوچ ہے کہ ’’ بابا آپ کو کچھ نہیں آتا‘‘ ، بزنس میں بلاول ہوتا تو بھی یہ سوچ ہوتی کہ ’’ آپ کو پتہ نہیں‘‘ سیاست میں بھی کہ ’’ آپ کو کچھ پتہ نہیں‘‘۔ آج کی نئی نسل کی اپنی سوچ ہے، انہیں سوچ کے اظہار کا حق ہے، بلاول کہے گا آپ سیاست کرو، میں سیاست نہیں کروں گا تو میں کیا کروں گا؟ میں کسی کو کیوں روکوں، روکوں گا تو اور مسئلے ہوں گے، سیاست میں سیکھتے سیکھتے سیکھتے ہیں، مجھ سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں‘‘۔
عمر رسیدہ سیاست دان کیوں چاہیں گے کہ وہ لوگ سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیں۔ پاکستان میں سیاست ہو یا سرکاری ملازمت، کوئی رضاکارانہ طور پر علیحدہ نہیں ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان میں جہاں معاشی مسائل تو اپنی انتہا پر ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت سارے سیاسی اور سماجی مسائل ہیں۔ ان تمام مسائل کو جتنا جلدی حل کر لیا جائے تو اس کے عوام ہی کے لئے بہتر ہوگا۔ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی الجھاوا پیدا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو جب پہلی بار وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا تو ان کی عمر کیا تھی؟ جب بے نظیر بھٹو پہلی وزیرِ اعظم بنیں تو ان کی عمر کیا تھی؟ عمران خان کی حکومت بنی تو ٹک ٹاک کی حکومت تھی، جب نواز شریف کی حکومت بنتی ہے تو اشرافیہ کی حکومت ہوتی ہے۔
پاکستان میں سیاست دانوں کی عمر پر بحث معمول ہے کیوں کہ وہ رٹائر ہونا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی ایسی بحث چھڑی تھی۔ مغربی پاکستان میں نوجوان نسبتا جوان سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے گرد جمع تھے۔ صوبہ مشرقی پاکستان میں بھی شیخ مجیب الرحمان نوجوانوں اور جوانوں کے چہیتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں تو شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی جماعت عوامی تحریک بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی تھی۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی لیکن معمر سیاست دان بھی کامیاب ہوئے تھے۔ بعد میں ایسا کم ہی ہوا کہ جوان یا نوجوانوں کو منتخب ہونے کا موقع دیا گیا ہو۔ نواز شریف ایک بار، دوسری بار اور تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اقتدار کی ہوس ایسی لگی ہے کہ سابق صدر فاروق لغاری صدارت سے علیحدگی کے بعد بھی سیاست میں سر گرم رہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی صدر منتخب ہونے اور صدارت کے عہدے سے علیحدگی کے بعد سیاست سے ریٹائر کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شہباز شریف ایک سے زائد بات پنجاب کے وزیر آعلی منتخب ہونے اور وزیر اعظم بھی منتخب ہونے کے بعد سیاست میں سرگرم ہی رہنا چاہتے ہیں۔ کئی ایس سابق اراکین اسمبلی موجود ہیں جو ’’ ایک بار پھر‘‘ کی تکرار کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ عمر رسیدہ سیاست دانوں کو ’’ ووٹ‘‘ سے ہٹایا جائے۔ یہ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ اس ملک میں رضاکارانہ طور پر تو کوئی بھی کہیں سے بھی ہٹنا نہیں چاہتا ہے۔ یہ ایک طرح سے قبضہ چھڑانے کا معاملہ ہے۔
پاکستان میں اسمبلی تو یہ فیصلہ نہیں کرے گی کہ عمر کیا پابندی عائد کی جائے۔، جو اسمبلی انتخابی ضابطے تیار نہیں کر سکی ہو کیا کرے گی۔ کیوں کہ اس ’’ کلب‘‘ کی رکنیت مخصوص لوگوں کے لئے ہے۔ یہ مخصوص لوگوں کو تعلق دولت مند طبقے سے ہے۔ وہ قطعی نہیں چاہتے کہ درمیانہ اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کلب میں داخل ہو سکیں۔ اس کلب کی ایک اور خطر ناک بات یہ ہے کہ ملک میں مورثی سیاست کی بنیاد ڈال دی گئی ہے جو انتہائی تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔ سیاست کرنے والے تمام لوگوں کو اس رجحان کو زبر دستی روکنا چاہئے ورنہ یہ ملک کسی دن بادشاہت کی طرف چلا جائے گا۔ آج بھی دیکھیں پورے پورے خاندان سیاست کر رہے ہیں حالانکہ ان کی اکثریت عمل سیاست ، آئین، پارلیمنٹ کی قانونی ضرورتوں سے با بلد ہیں۔ الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ 70سال سے زائد عمر کا امیدوار انتخابات میں سرے سے حصہ ہی نہیں لے سکے گا۔ وزیر اعظم کے عہدے پر کوئی بھی شخص دو بار سے زائد منتخب نہیں ہوگا۔ اسی طرح رکن اسمبلی بھی تیسری بار انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ سینیٹ کا رکن بھی تیسری بار منتخب نہیں ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی وزرا بھی تیسری بار انتخابات میں حصہ لینے پر نااہل قرار پائیں گے۔ ضلع کونسل کی سربراہی اور رکنیت صرف ایک بار ہی کسی بھی شخص کے حصہ میں آئے گی۔ ان پابندیوں کے بعد ہی پاکستان میں جوانوں اور نوجوانوں کے لئے راہیں کھلے گی۔ یوں تو اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کو یہ بھی فیصلہ کرنا چاہئے کہ درمیانہ اور نچلے طبقی سے تعلق رکھنے والے افراد کس طرح اسمبلیوں میں آسکتے ہیں۔ کمیشن کو اسی طرح سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ملک کو مورثی سیاست کے عذاب سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے ۔ سیاست کیوں کر مورثی ہو سکتی ہے اور کیوں کر اسے مورثی ہونے کی اجازت دی جائے۔ سیاست کو سیاست رہنے دیا جائے، اسے زمینداری یا پیری مریدی کے نقش قدم پر نہیں چلانا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button