Tajamul Hussain Hashmi

رشتہ داروں، دوستوں سے جوڑے رہیں

تجمل حسین ہاشمی
بہت مشکل ہوتا ہے، جب آپ اپنا آبائی گھر، گائوں اور دوست چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں آباد ہو جاتے ہیں، بچپن کے دوست، رشتہ دار سب گزرتے وقت کے ساتھ دور ہوتے جاتے ہیں، آپ کی یادیں آہستہ آہستہ تاریخ بن جاتی ہیں۔ نئے تعلقات جنم لیتے ہیں۔ نئے تعلقات میں زیادہ تر لوگ دھوکے بازوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ بھروسہ انسان کرتا ہے لیکن وفا تو کسی کسی کے حصہ میں آتی ہے۔ لیکن گزرے لمحات نئے لمحات سے زیادہ خوب صورت محسوس ہوتے ہیں ۔ پرانے تعلقات نئے تعلقات سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ماضی انسان کو آسائشوں کی کمی کے بعد بھی اچھا لگتا ہے۔ میں نے دیکھا سرکاری اداروں میں خاص کر وفاقی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اور ان کے بچوں کے دوست کم اور تعلق بھی کمزور ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے تبادلے بڑی جلدی ہوتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر۔ اس مرحلے سے میں بھی گزر چکا ہوں، اس لیے میں بہت اچھا جانتا ہوں۔ جب تک آپ لوگوں سے ملتے رہتے ہیں، تعلقات بھی قائم رہتے ہیں۔ جس دن آپ نے ملنا چھوڑا آپ کو لوگ چھوڑ جائیں گے۔ دنیا میں وہ رہے گا جو جوڑا رہے گا۔ لیکن بچپن، لڑکپن کی شرارتیں زندگی کے کسی کونے میں چھپی رہتی ہیں۔ جو انسان کو یاد رہتی ہیں۔ آج کا انسان ان یادوں سے دور ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری والدہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، پتہ نہیں اس میں کتنی حقیت تھی۔ بچپن میں سنا تھا کہ شام کے بعد دوسری مخلوقات ( جنات ) باہر نکل آتی ہیں۔ اسی طرح بچپن حتیٰٰ کہ لڑکپن کی عمر میں بھی والدین خوشبو لگانے سے منع کرتے تھے۔ ہمیں ڈرایا جاتا تھا کہ خوشبو لگانے والوں کو جنات پکڑ لیتے ہیں۔ جنات تو نظر نہیں آئے لیکن باتیں آج بھی یاد ہیں۔ لیکن کئی ایسی عادتیں ہیں جو بچپن سے آج تک ساتھ چل رہی ہیں۔ اب عمر کے اس حصے میں بھی رات دیر تک باہر رہنا اچھا نہیں لگتا، حالانکہ کراچی میں لوگ رات دیر تک جاگتے ہیں۔ میں آج بھی بچوں کو خوشبو لگانے سے منع کرتا ہوں۔ لیکن ان باتوں کو بڑوں کی نصیحت سمجھ کر آج تک فالو کیا ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یقینا اس میں بہتری ہو گی جو بزرگوں نے منع کیا تھا۔ انسان کو خوشگوار زندگی کے لیے ایک دوسرے سے تعلقات رکھنے چاہئیں۔ اس نفسا نفسی اور ڈپریشن، جہاں ہر دوسرا بندہ شکار ہے، کے دور میں دوستوں کی محفل کسی نعمت سے کم نہیں، آج رات دیر تلک میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ تھا، محفل ایسی جمی کہ وقت کا اندازہ نہیں ہوا، بڑے بھائی اچھے دوست شیراز کوٹی کی باتوں نے ایسا سما باندھا، جس کے لیے مجھے کالم لکھنا پڑا۔ شیراز بھائی کا کہنا تھا کہ’’ ہم دوست مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ہماری تربیت، رسم رواج، رہن سہن یقینا ایک دوسرے سے مختلف ہے، اور نا ہی ہم ایک دوسرے کے چڈی دوست ہیں۔ ہر کسی کی مالی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی مالی طور پر کمزور اور کوئی مضبوط ہے ، کوئی عمر میں چھوٹا اور کوئی بڑا ہے۔ لیکن اس دوستی گروپ میں سب کی سوچ متحد ہے۔ بڑوں کا احترام اور دوستوں کی عزت مقدم ہے۔ جہاں کمزور دوست کو بھی دوست رکھتے ہیں، شیراز بھائی کا کہنا تھا کہ ہم عمر میں بڑے ضرور ہیں لیکن دوستی کے اصول بچپن والے ہیں۔ جہاں چند لمحے اختلاف کے بعد دوسرے لمحے ساتھ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے دوستوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہمارے آپس کے دو میٹھے بول، صاف گوئی ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔ میٹھے بول حاسدین کو بھی خاموش کر دیتے ہیں۔ ہمارے کاروباری معاملات، نظریات اور سوچیں ضرور مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس تعلق کو متحد رکھنے کے لیے سب کو سب سے میٹھا بول بولنا ہے، دولت اور رتبہ تفریق کو ضرور جنم دیتا ہے، مہنگی گاڑی سے اتر کر دوستی اور رشتوں کے تقدس کا خیال رکھنا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ ہزاروں کا بل بھرنے سے کوئی چند لوگوں کو دوستی اور رشتوں میں نہیں جوڑ سکتا۔ چار ہمدرد، دوست بڑی نعمت ہیں اور یہ نعمت ہمیں نصیب ہے، دوستوں کو آپس میں جوڑے رکھنا کا فن شیراز بھائی کے پاس ہے، اپنے قریبی لوگوں کا خیال رکھنا کوئی ان سے سیکھے ۔ تحمل، سلیقہ مندی، احترام اور مہمان نوازی ایسی کہ دشمن بھی قابل عزت ٹھہرے۔ معاملہ فہمی کے بادشاہ ہیں۔
اس تحریر کو لکھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ ملکی حالات اور واقعات نے مرد حضرات کو ذہنی دبائو میں ڈال دیا ہے۔ روزگار نہ ملنے پر لوگ پریشان ہیں، ضروریات زندگی مشکل سے چل رہی ہیں۔ سیاسی حالات کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے بیانات طوفان مچا رہے ہیں۔ فیملی سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہاہے، لوگوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ نفرتوں کا آغاز ہو چکا۔ رشتوں میں نفسا نفسی کا عالم ہے، حکومتی پالیسیوں میں گزشتہ 40سالوں سے کوئی تعمیری بہتری نظر نہیں آئی۔ نظام دن بدن تفریق کو بڑھا رہا ہے، امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے، تمام مسائل سے خانہ داری مشکل ہو چکی ہے، گھروں میں موجود عورتیں ذہنی دبائو کا شکار ہیں، جب ملک کے ایسے حالات ہوں تو لوگوں کو آپس میں رابطے بحال رکھنے چاہئیں، رابطوں کی بحالی سے ذہنی دبائو میں کمی ہو گی، دوست ، رشتہ دار ایک دوسرے کے لئے ڈھارس کا کام کرتے ہیں۔ خیالات کا اظہار ذہنی دبائو میں کمی لاتا ہے، اس وقت ایک دوسرے سے تعلقات کو بحال رکھنے ہیں، دوریاں ختم کریں، خوش رہیں، اپنی خوش گپیوں کو بحال کریں، معیشت میں سکون پیدا کرنے والے وہی تاجر ہیں جو سیاسی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button