یہ تنازع کیا ہے ؟
تجمل حسین ہاشمی
پاکستان کی تاریخ میں اکثر دو عیدیں بھی منائی گئیں۔ چاند کی شہادتوں کے حوالے سے تنازع کھڑا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ دو عیدیں کرتے ہیں ۔ چاند دیکھنے، رمضان کے آغاز اور عیدین منانے کا تنازع گزشتہ کئی سال سے چلا آرہا ہے۔ مفتی پوپلزئی کے مطابق ان کا مرکزی کمیٹی کے ساتھ اختلاف ہی اس بات پر ہے کہ وہ فلکیات کی سنتی ہے اور شرعی طور پر رویت اور شہادت کا جو حکم ہے اس پر عمل نہیں کرتی۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مفتی پوپلزئی کے عید کے اعلان کو مانا جاتا ہے، ان علاقوں میں پشاور کے کچھ علاقے، مردان، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ اور کچھ قبائلی اضلاع شامل ہیں، تاہم مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن سمیت زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں عید مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے علان پر منائی جاتی ہے۔
اس تنازع کو 2019ء میں سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے قمری کیلینڈر کی ایپ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ناکامی ہوئی، کیوں مذہبی جماعتیوں نے اس اپپس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فواد چودھری کے دور میں قمری کیلینڈر بنانے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی قائم کی تھی جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل تھے۔ لیکن پھر بھی کمیٹی ناکام رہی۔ تاہم دو سابق چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان اور مفتی پوپلزئی نے اس طریقے کو تسلیم نہیں کیا اور یوں روایتی انداز سے چاند دیکھنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مفتی منیب کے حوالے سے عمران خان دور حکومت میں کافی تنقید کا سامنا رہا۔ چیئرمین مرکزی ہلال کمیٹی کو اس بات پر تنقید کی گئی کہ وہ سارا بجٹ استعمال کر جاتے ہیں ۔ 25کروڑ عوام کو کمیٹی کو جاری بجٹ کے حوالے سے مکمل معلومات نہیں تھیں۔ اس مسئلہ کے حوالے سے مفتی پوپلزئی نے انٹر نیشنل میڈیا کو بتایا کہ شریعت میں قمری کیلنڈر کے مطابق رمضان کے آغاز اور عیدین کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق چاند کی رویت اور شہادت سے ہے اور اس کے لیے شریعت میں احکامات موجود ہیں۔
احادیث کی سات کتابوں میں 129 احادیث ہیں، جن سے چاند کی رویت اور شہادت ثابت ہیں۔ کسی بھی شخص کے لیے قمری کیلنڈر کے مطابق رمضان کے آغاز یا عیدین کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر سال پورے ملک میں ایک عید بنانے کی سرکاری سطح پر بھی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن اتفاق نہ ہو سکا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت نے دو عیدوں کے تنازع کو حل کرنے کی خاطر 2021ء میں نجی رویت ہلال کمیٹیوں پر پابندی عائد کر دی تھی، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ اس دوران سوشل میڈیا پر ایسا تاثر پیدا کیا گیا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ان دعوئوں کی حقیقت جاننے کے لیے ترجمان وزارت مذہبی امور عمر بٹ نے انٹر نیشنل میڈیا کو بتایا کہ حکومت پاکستان کی قائم کردہ رویت ہلال کمیٹی کا مقصد ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرنا ہے۔ کمیٹی کے موجودہ چیئرمین عبدالخبیر آزاد ہیں، صوبائی اور مرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کمیٹی میں سرکاری محکموں کے افراد بھی شامل ہیں جن میں محکمہ موسمیات، نیوی اور سپارکو کے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہر اجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور پھر متفقہ رائے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند کی رویت یا عدم رویت کا اعلان کرتی ہے۔ کمیٹی رویت ہلال کی متفقہ فیصلے پر ارکان کے دستخط بھی موجود ہوتے ہیں۔ ترجمان کہنا تھا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے 21مرکزی ارکان ہیں جن میں اسلامی سکالرز ، خلائی تحقیقی ادارہ ( سپارکو)، وزارت سائنس اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے عہدے دار شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے سال میں چار بار بڑے اجلاس ہوتے ہیں جس میں رمضان، شوال، ذی الحجہ اور محرم شامل ہیں۔ ممبران اس کام کی باقاعدہ کوئی تنخواہ نہیں لیتے ہیں اور نہ ہی انہیں خاص کوئی مراعات ملتی ہیں۔ جیسا کہ سیاسی حکومتوں کی طرف سے قائم کی گئی کمیٹیوں کو ملتی ہیں۔ البتہ کرائے یا ٹی اے ڈی اے کی مد میں جو کوئی ممبر اعزازیہ لینا چاہیں انہیں مل جاتا ہے لیکن جو کہ بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ ترجمان مذہبی امور نے کمیٹی کا مکمل بجٹ سے متعلق میڈیا کو بتایا کہ 35سے 50 لاکھ روپے تک کا بجٹ رکھا جاتا ہے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کو سوشل میڈیا پروپیگنڈا قرار دیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میڈیا معلومات کے مطابق سال میں صرف چار مرکزی اجلاسوں میں گاڑی یا جہاز کا اکانومی ٹکٹ اور عام ہوٹل میں ایک دن کی رہائش ملتی ہے، اس کے علاوہ کمیٹی کے ارکان کو کچھ نہیں دیا جاتا۔
سابق وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے اپنے دور حکومت میں سینیٹ میں ایک سوال پر تحریری جواب جمع کرایا تھا ، جس میں بتایا گیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سال میں 12اجلاس ہوتے ہیں جن میں مرکزی اجلاس صرف چار ہیں ۔ کمیٹی کے لیے 2018۔2019ء میں 34لاکھ 71ہزار روپے سالانہ بجٹ رکھا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ممبران کو گریڈ 20کے سرکاری افسر کے برابر ٹی اے ڈی اے کی قانونی طور پر منظوری ہے لیکن سوشل میڈیا پر کروڑوں روپے کے پروپیگنڈا کو لوگوں حقیقت تصور کر چکے۔ اس پروپیگنڈا نے اس وقت زور پکڑا جب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سابقہ کے وزیر فواد چودھری نے قمری کیلنڈر کے مطابق عید کرنے کا علان کیا لیکن چودھری صاحب کی وزارت کی طرف سے کی جانے والی کوشش سے حاصل و وصول کچھ نہیں ہوا لیکن غلط پروپیگنڈہ اور معلومات کو ہوا دی گئی۔ دشمن عناصر حکومت فیصلوں میں غیر ہم آہنگی کی بنیاد پر تفریق کو جنم دیتے ہیں۔ جن کا صرف یہی مقصد کہ ملک میں نفرت اور تقسیم میں اضافہ ہو، ایسے فیصلے باہمی اعتماد اور قرآن سنت کی روشنی میں کئے جانے چاہئیں۔ ایک ہی دن عید پورے ملک میں منائی جائے ۔ تفریق، نفرت ختم ہو۔ نجی اور سرکاری سطح پر قائم کی جانے والی کمیٹیوں کو ایک لائحہ عمل کے تحت متفق ہونا چاہئے تاکہ معاشرتی تفریق میں اضافہ نہ ہو سکے۔