ColumnTajamul Hussain Hashmi

مارچ میں امتحانی نتائج

تجمل حسین ہاشمی
مارچ اور بچوں کے سالانہ نتائج کا اعلان، سکول میں بچوں کو دیکھ کر اپنے پچپن کے امتحانات یاد آ گئے، جب صبح سویرے سکول اسمبلی میں نتائج کا علان کیا جاتا تھا۔23مارچ ایک تاریخی دن ہے۔ 23مارچ یوم پاکستان ہے اور اسی دن بچوں کے تعلیم امتحانات کا بھی اعلان کیا جاتا تھا۔ ہمارے بچپن میں سالانہ امتحانات مارچ اور اس کا نتیجہ 23مارچ کی صبح سکول اسمبلی میں سنایا جاتا تھا۔ کیا دن تھے۔ سبق کو ایسا رٹا لگاتے تھے آج کل کے بچے کیا لگائیں گے۔ ہمارے دور میں پوری پوری کتاب کی تیاری کی جاتی تھی، آج کل تو امتحانات کو سمسٹر میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ کئی دوست ایک ہفتہ پہلے ہی نمازیں شروع کر دیتے تھے، اللّہ کی ذات پر یقین ضروری ہے۔ تیس مارچ کا انتظار بڑا مشکل تھا۔ صبح ڈریس اپ ہو کر جلدی جلدی سکول پہنچنے کی جلدی اور ساتھ اس بات کا خوف کہ اگر فیل ہو گئے تو ایسی کٹائی لگ جائے گی اور پورا گائوں دیکھے گا۔ امی ایک دو روپیہ دیتی تھیں۔ کئی دوستوں کے گھر والوں کی طرف سے کچھ نہیں ملتا تھا، مجھے یاد ہے میں اپنے دوستوں کا بھی خیال کرتا تھا تاکہ پاس ہونے کی خوشی کو وہ بھی لطف اندوز کر سکیں۔ صبح سویرے اسمبلی ہال میں ہیڈ ماسٹر صاحب امتحانی نتیجے کا اعلان کرتے تھے۔ پہلے ان بچوں کا نام لیا جاتا جو فیل ہوتے تھے۔ چار پانچ سو بچوں کے سامنے جب نام پکارا جاتا تو وہ بم شل سے کم نہیں ہوتا تھا۔ کئی بچوں کے رونے کی آوازیں واضح سنائی دیتی تھیں۔ اس کے بعد ان کا نام لیا جاتا جو زیر غور ہوتے تھے۔ زیر غور کا مطلب ( گریسں نمبر ) یعنی زیر غور آنے والے بچوں کے ابا کی سکول میں یقین دہانی کے بعد اگلی کلاس میں بیٹھنے کی اجازت ملتی تھی۔ فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن ہولڈر بچوں کے نام پکارے جاتے تھے۔ پورا سکول تالیاں بجا کر خوش آمدید کہتا۔ ہمارے ہاں چھواروں، کھوپرے کو پرو کر ہار نما استاد کے گلے میں ڈالتے تھے۔ والدین بھی اپنے بچوں کو ہار ڈال کر خوش آمدید کرتے تھے۔ ایک منفرد دن ہوتا تھا۔ پورے گائوں میں 23مارچ کو رونق ہوتی۔ فیل ہونے والے ساتھیوں کو سب دوست تسلی دیتے تھے۔ نئی کتابوں کی خریداری کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ سکول میں بیٹھنے کے کوئی خاص انتظامات نہیں تھے، بس زمین پر بوری ڈال کر بیٹھا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے سے کتابیں تبدیل کرتے تھے، کیوں کہ نئی کتابیں خریدنے کے پیسے نہیں ملتی تھے۔ پہلے ہی سینئر کلاس والوں سے کم قیمت پر خرید لیتے اور اپنی پرانی کتابیں کم قیمت پر دوسرے ساتھی کو فروخت کر دیتے تھے۔ بڑا خوب صورت وقت تھا۔ مارچ کے مہینے میں بیر پک کر تیار ہو جاتے تھے۔ جو اس وقت کے مطابق سستا اور زیادہ مقدار میں ملنے والا پھل تھا۔ پاس ہونے کی خوشی میں ( چونی) 25پیسے کے بیر خرید کر تقسیم کرتے۔ گھر والوں کو بھی بیر کھلاتے۔ جو دوست فیل ہو جاتے اس کے ساتھ ہمدردی رکھتے، اس کو دلاسہ دیتے، اس کے غم میں برابر شریک ہوتے۔ اس دور میں فیل ہونا بھی عذاب تھا۔ والدین کی طرف سے اچھی خاصی پٹائی ہو جاتی تھی، گلی محلے اور رشتہ داروں کی باتیں ان کے بے بنیاد الزامات زد عام ہوتے تھے۔ اللّہ پاک معاف کرے ، فیل ہونے والے کا جینا حرام ہو جاتا تھا۔ فیل ہونا موت تھا۔ لیکن پھر بھی بہت خوب صورت یادیں تھیں۔ پاس ہونے کے بعد ایسی خوشی محسوس ہوتی تھی جو قابل بیان نہیں۔ رات کو لالٹین کی مدد سے پڑھتے تھے۔ لالٹین میں مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا تھا، جو کہ دوسرے گائوں سے خرید کر دلواتے تھے۔ امتحانات کے دوران پانچ ٹائم نماز باقاعدگی سے ادا کرنا اور خصوصی دعائوں کا اہتمام بھی کرواتے تھے۔ کتابوں پر گتے کی جلد چڑھنا۔ کتابوں کی جلد بندی کرنا۔ آٹے کو گرم کر کے اس کی لپ بنا کر جلد بندی کرنا۔ کپڑے کا بستہ جو کئی سال چلتا تھا۔ گائوں کے درزی سے ٹانکا لگا کر اس کو مزید کئی سال قابل استعمال بنا دیتا تھا۔ سکول کے ورک کیلئے صرف ایک رجسٹر ملتا تھا جس پر تمام پیریڈ کا ہوم ورک کیا جاتا تھا۔ آج کل ہر سال بچوں کو نیا سلیبس اور کاپیاں ملتی ہیں۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ سکول کی فیس ( آنوں ) میں تھی۔ آج کل سکولوں کے اخراجات اور فیسیں ادا کرنا مشکل ہیں۔ ملک میں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں امتحانات کے نتائج کا کوئی دن مقرر نہیں، ہر کسی نے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے۔
تعلیم کو کاروبار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مشرف صاحب دنیا سے چلے گیے اللّہ پاک ان کے گناہ معاف کرے۔ انہوں نے تعلیم کو کاروبار کا درجہ دے کر معاشرتی تفریق کو جنم دیا۔ ملک کو طاقتور کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ہے۔ سرکاری سکول کا کوئی حال نہیں۔ ماضی میں سرکاری سکولوں کے پڑھے ہوئے بچے ملک کے ستارے بنے۔ وہ سکول اب کھنڈر بن چکے ہیں۔ تعلیم نظام اب گٹر بن چکا ہے۔ حکومت کی رٹ کہنی نظر نہیں آ رہی۔ پرائیویٹ سکول میں تہذیب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غیر شرعی تہذیب کو پرمووٹ کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے قرآنی تعلیم اور ملک میں ایک نصاب کو لازمی قرار دیا اور کامیاب پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جو لیبر بن چکے ہیں، بے فکر سرکار اپنے پروٹوکول اور سیاست تک محدود ہو چکی ہے۔ حکمران ریڈ کارپٹ میں پھنس گئے ہیں اور عوام بے حال ہو چکے ہیں۔ نوجوان ہی ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے لیکن مقتدر حلقے 70سال سے قائدین کو معاشی ترقی کا ہیرو سمجھ رہے ہیں، جنہوں نے تین، تین باریاں لیں لیکن تعلیم اور بنیادی حقوق نہ دے سکے۔ قوم کے ووٹ سے ثابت ہوا کہ وہ اس موجودہ نظام سے تھک چکے ہیں اور اپنے حقوق کے لئے با آواز ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button