ColumnImtiaz Aasi

قیدیوں کی ہلاکتیں اور تحقیقات

امتیاز عاصی
حقیقت میں دیکھا جائے تو جیلیں قیدیوں اور حوالاتیوں کو بحفاظت رکھنے کی جگہیں ہیں اگر اسیران کو جیلوں میں زندگی کاتحفظ نہ ہو تو ایسی جگہوں کو کیا نام دیا جائے گا؟ اسیران کو انگریز سرکار کے بنائے ہوئے قوانین کی روشنی میں رکھا جائے تو جیلوں میں قیدیوں کی ہلاکتوںکے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسیران کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ بیرکس اور سیلوں میں مقررہ تعداد over crowdingسے زائد قیدی ہیں۔ جیل مینوئل کے مطابق ایک سیل میں سزائے موت کے ایک قیدی کو رکھا جا سکتا ہے لیکن ڈسٹرکٹ جیلوں میںجگہ کی کمی کے باعث دس سے زیادہ قیدی ایک سیل میں رکھے جاتے ہیں ۔چند سال پہلے تک ڈسٹرکٹ جیلوں میں سزائے موت کے قیدی سیلوں میں شفٹوں میں سویا کرتے تھے۔یہ قدرتی امر ہے جو جگہ ایک قیدی کے لئے مختص ہے وہاں بھیٹر بکریوںکی طرح انسانوںکو رکھا جائے تو کسی نہ کسی معاملے پر لڑائی جھگڑوں کا ہونا یقینی امر ہے ۔جن شہروں میں سینٹرل جیلیں ہیںوہاں حوالاتیوں اور قیدیوں کو ایک ہی جیل میں رکھا جاتا ہے لہذا جب تک نئی جیلیں نہیں بنائی جاتیں لڑائی جھگڑے کے واقعات میں کمی ممکن نہیں۔لڑائی جھگڑوں کی ایک دوسری وجہ قیدیوںکے بیرکس سے باہر جانے کی کھلی آزادی سے بھی معاملات بگڑجاتے ہیںحالانکہ جیل مینوئل پوری طرح عمل درآمد ہو تو قیدی اپنی بیرکس سے دوسری بیرک میں نہیں جا سکتے۔جیل مینوئل پر من وعن عمل درآمد ہو تو نہ تو خودکشی اور نہ لڑائی جھگڑے کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔عجیب تماشا ہے ایک طرف حکومت آئے روز جیلوں میں اسیران کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا رہی دوسری طرف جیل مینوئل پرپوری طرح عمل درآمد سے پہلو تہی سے قیدیوں اور حوالاتیوں کی ہلاکتیں روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔کئی عشرے پہلے جب قیدیوں کو سہولتوں کا فقدان تھا لڑائی جھگڑے اور اموات خال خال ہوا کرتی تھیں تعجب ہے نئی نئی سہولتوں کی فراہمی کے باوجود قیدیوں اور حوالایتوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات جیل حکام کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سنٹرل جیل راولپنڈی میں ہونے والی اسیران کی ہلاکتوں اور مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی رپورٹ پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ سے طلب کر لی گئی ہے۔ سپیشل برانچ کو موصول ہونے والی گم نام درخواست میں گزشتہ تین ماہ میں تین حوالاتیوں کی ہلاکت اور دیگر بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سرکاری ہدایات کی روشنی میں گمنام شکایت پر کارروائی نہیں ہو سکتی البتہ شکایت کے مندرجات میں کوئی چیز ثابت ہو جائے تو قانونی طور پر تادیبی کارروائی ہو سکتی ہے۔ قیدی چھری یا چاقو نہیںرکھ سکتے ہوتا یہ ہے اسیران جیل کے لنگر خانے سے گھی کے خالی ہونے والے ٹین کسی طرح لے کر ان کے کٹر بنا لیتے ہیں جس سے وہ سبزی کاٹنے کا کام لینے کے علاوہ لڑائی جھگڑے کے موقع پر اس کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ اسیران کانچ اور سٹیل کے برتن نہیں رکھ سکتے جیلوں میں کانچ اور سٹیل کے برتن موجود ہوتی ہیں۔ سزائے موت کے قیدی شلوار میں آزار بند کی بجائے لاسٹک ڈال سکتے ہیں، موت کی سزا پانے والے قیدی اپنی شلواروں میں لاسٹک کی بجائے آزار بند ڈالتے ہیں۔ چند سال قبل سینٹرل جیل اڈیالہ میں محمد اقبال نامی سزائے موت کے قیدی نے آزار بند سے خودکشی کر لی تھی جس کے بعد ڈیوٹی پر موجود ہیڈ وارڈر کو ملازمت سے معطل کرنے کے دو تین ماہ بعد ملازمت پر بحال کر دیا گیا تھا۔ بسا اوقات اسیران کی تحویل میں غیر قانونی اشیاء لڑائی جھگڑے کے موقع پر استعمال ہوتی ہیں۔ ٹوری قسم کے حوالاتی اور قیدی صبح گنتی کھلتے ہی اپنی بیرکس سے نکل کر دوسری بیرکس میں چلے جاتے ہیں اور شام کو گنتی بند ہونے سے چند منٹ پہلے واپس اپنی بیرکس میں آجاتے ہیں۔ایسے قیدی جو اپنے انچارج کی مٹھی گرم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں بیرکس سے باہر جانے کی بالکل اجازت نہیں ہوتی یہ بات بعض اوقات قیدیوں اور حوالاتیوں کے مابین لڑائی جھگڑے کی باعث بن جاتی ہے۔ وہ حوالاتی اور قیدی جو دھوکہ دہی اور فراڈ کے مقدمات میں جیلوں میں آتے ہیں مالی اعتبار سے خوشحال ہوتے ہیں وہ جس وقت چاہیں دوسری بیرکس اور جیل کے ہسپتال جا سکتے ہیں ورنہ بے سہارا قیدیوں اور حوالاتیوں کو علالت کے باوجود جیل کے ہسپتال لے جانے کو کوئی ملازم تیار نہیں ہوتا بلکہ انہیں ہسپتال کا ڈسپنر ان کی بیرکس میں ادویات پہنچا دیتا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے گمنام شکایات کرنے میں زیادہ تر عمل دخل جیل ملازمین کا ہوتا ہے جن ملازمین کو من پسند بیرکس اور دیگر مقامات پر ڈیوٹی نہیں ملتی وہ س طرح کی شکایات کرکے دال کو تسلی دے لیتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے جیلوں میں غیر قانونی موبائیل کے خاتمے کے لئے پی سی او نصب کر دیئے ہیں تاکہ قانونی طور پر قیدی اور حوالاتی مقررہ جگہ جا کر اپنے اہل خانہ سے بات چیت کر سکیں جو احسن اقدام ہے۔ جیل افسران کو ایک ریجن سے دوسرے ریجن میں بھیجا جاتا ہے اسی طرح ہیڈ وارڈرز اوروارڈرز کو بھی دوسرے ریجنوں میں تبدیل کرنا چاہیے ۔ہیڈ وارڈرز اور وارڈر ایک ریجن میں ملازمت کرتے پوری ملازمت گذار دیتے ہیں انہیں دوسرے ریجنوں میں نہیں بھیجا جاتا ہے۔ جیلوں کے ملازمین کے تبادلوں کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے ۔اثر ورسوخ رکھنے والے ملازمین پر دوسری جیل میں تبدیل ہو بھی جائیں تو چند ماہ بعد وہ اسی جیل واپس آجاتے ہیں۔ جہاں تک جیلوں میں لڑائی جھگڑے اور رشوت کی بات ہے جب تک جیلوں میں مقررہ تعداد سے بہت زیادہ قیدی رکھے جائیں گے اور قیدیوں کو اپنی بیرکس سے باہر جانے کی کھلی آزادی پر قدغن نہیں لگائی جاتی اس طرح کے واقعات میں کمی ممکن نہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے جیل مینوئل پر پوری طرح عمل کئے بغیر جیلوں میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا۔ پنجاب حکومت آئے روز قیدیوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے جیل مینوئل پر پوری طرح عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو امید کی جا سکتی ہے جیلوں لڑائی جھگڑے کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button