ColumnTajamul Hussain Hashmi

حساب تو ہونا ہے

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
جن کے پاس پیسہ نہیں، گاڑی نہیں، ان کو زیادہ جستجو رہتی ہے۔ ایسے کئی افراد سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں ہیں جن کو زیادہ مال کمانے کی جستجو نہیں۔ مال سمٹنے کے ہزاروں مواقع ان کے گرد موجود ہوتے ہیں اور وہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں سے ملیں تو ان کو ضرور پوچھیں کہ ہر کوئی مال بنانے کے چکر میں ہے اور آپ صرف فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سب کچھ تو آپ کے سامنے ہے لیکن آپ کیوں لمبا ہاتھ نہیں مارتے۔ یقینا ان کا ایک ہی جواب ہو گا کیا کرنا ہے سب کچھ یہیں رہ جانا ہے بہت کچھ دیکھا ہے۔ کئی انجام اپنی آنکھوں کے سامنے ہیں غلط کام کا انجام بھی غلط ہے۔ انسان اپنی عزت بچا لے بڑی بات ہے۔ اس وقت جو حالات چل رہے ہیں اس میں ہوس، حرص انسانوں کے چہروں پر واضح نظر آتی ہے، پہلے چہروں سے روحانیت ختم ہو جاتی تھی آج کل سفیدی کے لیے انجکشن لگوا لیتے ہیں، اس صورتحال کا اندازہ اب آسانی سے ہو جاتا ہے۔ ان کو کئی دوست احباب مشورے دیتے ہیں ایسا کر لو ویسا کر لو ۔ لیکن میں نے ان لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے بھائی میں ایسا غلط کیوں کروں۔ آپ کو تھوڑا وقت دینا ہو گا انسانوں کو آپ خود بخود سمجھ جائیں گے۔ انسان کی تربیت کے اثرات اس کی زندگی پر واضح نظر آتے ہیں۔ تربیت میں رزق سب سے اہم ہے۔ رزق کی تقسیم کو دل سے تسلیم کر لینا، اللّہ کی حاکمیت کی صدق دل سے قابلیت ہے۔ پھر انسان کافی حد تک پر سکون ہو جاتا ہے۔ رزق کی تقسیم کا ذمہ کسی فرد کے سپرد نہیں بلکہ دونوں جہانوں کے خالق کے پاس ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے زندگی موت کا مالک ہے۔ قدرت کی ہر شے اللّہ کے حکم کی محتاج ہے۔ وہی ہمارا رب ہے۔ جہاں تک انسانوں کے رویوں میں بہتری کی بات ہے ، یہ اس وقت تک ممکن نہیں کیوں کہ کہنے والے کا کردار کا بڑا عمل دخل ہے۔ میری سوچ کے مطابق انسان کسی اور تو کیا اپنے قریبی لوگوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ کوشش انسان پر فرض ہے۔ سمجھ اللّہ ہی دے تو آتی ہے۔ زندگی کے امتحانات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو نا شکرے انسانوں کے تو قریب بھی نہیں بیٹھنا چاہئے۔ وہ کبھی اپنا رخ آپ کی طرف موڑ لیں گے۔ اپنے تعلقات کو محدود رکھیں پر سکون رہیں گے۔ حرص زدہ انسان کی زبان سے کبھی بھی مثبت کلمات ادا نہیں ہوں گے وہ انسانوں کی کمی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کی کوشش کرے گا، مال و دولت کی حرص اس کی سوچ کو مفلوج کر دے گی۔ غلط اور سہی کا تصور بھی مٹا دے گی۔ اگر ایسے افراد سے آپ کا واسطہ ہے تو ان سے اپنے تعلق کو محدود کریں۔ اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ آپ حاسدین سے اس دور میں محفوظ ہیں۔ سینئر صحافی و مصنف رئوف کلاسرا صاحب کو آج کل حاسدین نے الجھ دیا ہے۔ بڑے مہذب اور قابل احترام انسان ہیں، اپنی مٹی سے وفا دار ہیں۔ ہم ان کو کیسے مشورہ دیں، یہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی ، ان کی پوسٹ دو مرتبہ پڑھ چکا ہوں ۔ سچے ، کھڑے انسان کو منافقین ، احسان فراموش زیادہ تنگ کرتے ہیں۔ حضور اکرم ؐ اللّہ پاک کے بڑے محبوب ہیں دنیا میرے آقاؐ کیلئے بنائی گئی۔ حضور پاک ؐ کے سامنے منافقین بیٹھے ہوتے تھے اور حضور اکرمؐ ان منافقین کی تمام چالوں سے بخوبی واقف بھی تھے۔ حضورؐ دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ رحمت اللعالمینؐ ہیں۔ سب علم ہونے کے بعد بھی منافقین کو کچھ نہیں بولتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جناب محترم کلاسرا صاحب کو ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہئے۔ جناب کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ اللّہ نے عزت دی ہوئی ہے۔ جناب خاموشی بڑا انتقام ہے۔ چال باز، ہوس ، حرص کے پجاریوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے محسن کے مشکور ہوتے لیکن ایسے کیسے ہو جاتا کیوں کہ ان کی سمجھ، عقل میں مکاری ہے۔ محسن کے کندھے کو استعمال کرنا اور خود کو کامیاب ثابت کرنا مقصود ہے۔ یہ وقتی کامیابی ہو سکتی ہے ، تاریخی نہیں ۔
پھولوں کے ساتھ کانٹوں کی بھی قدر ہوتی ہے، جب پودے کو پھول آنا بند ہو جاتے ہیں تو مالک کاٹ کر جلا دیتا ہے۔ کم عقل لوگوں کو سمجھ نہیں، جلنے سے بہتر جڑے رہنا اچھا ہے۔ اپنے مفادات کے چکر میں اچھے انسانوں سے فیض یابی کو اپنی حرص، لالچ سے ختم کر دیتے ہیں، کسی کے مال مرتبہ سے حرص کرنے سے آپ خود کا نقصان کرتے ہیں، زیادہ مال و دولت حقیقت میں انسان کے سکون کا دشمن ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ پیسے ضرورت کے مطابق ہی اچھا ہوتا ہے زیادہ مال بھی آپ کے دشمن پیدا کرتا ہے۔ جب معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے تو انسان اسلامی طور پر بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ اچھے انسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے کیوں جھوٹ فریب عام ہو جاتا ہے۔ ہر انسان خصوصیات کا مالک ہے۔ خصوصیات کو استعمال کرنا انسان کی خود کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگر مال کمانا چاہتے ہیں تو رب کا شکر ادا کریں اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور خوب محنت کریں۔ یقین کریں مالدار ہونے کا یہی کامیاب طریقہ ہے۔ اگر مالدار نہ بھی ہوئے تو کم از کم حرص، لالچ سے تو دور ہوں گے۔ یہ تو طے ہے کہ دنیا سے واپسی ہے، ہم اپنی عمروں کا آدھے سے زیادہ حصہ گزار چکے ہیں، باقی ہمارے ہاتھ میں کیا ہے، ہر کسی کو اس کا علم ہے لیکن اپنی چلاکیوں اور حرکتوں سے کبھی باز نہیں آتے ہیں۔ انسان کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، دوستوں بھائیوں اور رشتہ داروں کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان رشتوں کے قرآن پاک میں بڑے حقوق بیان ہیں۔ ہمیں ٹھنڈے رہنا چاہئے۔ وقت کا کوئی پتہ نہیں، سہی اور غلط کا تصور انسان کی پیدائش کے وقت روح میں ڈال دیا جاتا ہے، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس تصور کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ روز قیامت حساب ضرور ہو گا، رحمت خداوندی سے بخش ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button