ColumnTajamul Hussain Hashmi

ایگریکلچر سیکٹر میں طاقتور

تحریر: تجمل حسین ہاشمی
پاکستان پیاز پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، جس کی سالانہ پیداوار تقریباً 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں پیاز کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہیں ۔ ایسی صورت حال صوبہ سندھ میں بھی ہے ، جہاں دوم درجے کا پیاز 220 روپے فی کلو سے زیادہ قیمت میں فروخت ہو رہا ہے۔ کراچی میں ایرانی پیاز اور پیلی پیاز جو کہ تاجکستان سے منگوا کر فروخت کی جا رہی ہے ، دونوں قسم کی پیاز کی قیمت میں معمولی فرق ہے ۔ ہمارے ہاں گھریلو اشیا کی خریداری زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں گلی محلوں میں ٹھیلے والے آواز لگا کر پیاز فروخت کر رہے ہوتے ہیں ۔ عام طور پر خواتین لال پیاز خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں ، جو اس وقت نایاب ہو چکا ہے۔ پاکستان زرعی ملک ضرور ہے لیکن تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ نا انصافی کی گی ۔ پارٹیشن کونسل نے پاکستان کو اس وقت 75کروڑ دینے کی سفارش کی تھی لیکن پاکستان کو صرف 20 کروڑ روپے دئیے گے۔ باقی 55 کروڑ روپے دینے سے صاف انکار کیا گیا ۔ اگر ہندوستان پارٹیشن کونسل کے فیصلے کو یقینی بناتا تو پاکستان ایک بڑا صنعتی زون بنا چکا ہوتا۔ ایک سازش کے تحت پاکستان کو پیچھے چھوڑا گیا ۔ تاکہ ( اللہ پاک نہ کرے) پاکستان ٹوٹ جائے۔ علیحدگی کے بعد پاکستان کے پاس ایگریکلچر کے علاوہ روزگار کے لئے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ ہندوستان کے پاس علیحدگی کے وقت 400 کروڑ روپے موجود تھے۔ جس میں پاکستان کا حصہ بھی موجود تھا۔ پاکستان کے حقوق سلب کرنے پر گاندھی نے بھوک ہڑتال کر کے لیڈر ہونے کا ثبوت دیا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ناکام زرعی پالیسی کی وجہ سے ہر سال 10 ارب روپے اجناس کی امپورٹ پر خرچ کئے جاتے ہیں ۔ حکومت پاکستان کے پروٹوکول ہی ختم نہیں ہوتے ۔ نسل در نسل اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں لیکن ملکی معاشی حالات تبدیل نہ ہو سکے ۔ سندھ میں پورے ملک کا 40 فیصد پیاز کاشت کیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان 33 فیصد، پنجاب اور خیبر پختونخوا بالترتیب
16 اور 11فیصد پیدا کرتے ہیں صدر سندھ آباد کار نواب زبیر تالپور کا کہنا تھا کہ میں 80 ، 90 ایکڑ پیاز کاشت کرتا ہوں لیکن صرف 20 ایکڑ پیاز قابل استعمال رہتا ہے ۔ پچھلے کوئی 3 سال سے پیاز کی فصل پر ایسا وائرس آیا ہوا ہے جس کا علاج محکمہ ایگریکلچر کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ جعلی دوائیاں مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن محکمہ ایگریکلچر کی طرف سے ان کے مافیا کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔ فیصلوں کو ہر آٹھ دن بعد پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس دفعہ پانی کی بھی کمی ہے ۔ پیاز کی کاشت کے حوالے سے پاکستان ان چند خوش نصیب ملکوں میں سے ہے جہاں پورا سال پیاز کی فصل کاشت ہو سکتی ہے۔ بقول نواز زبیر تالپور کے، سندھ میں سب سے زیادہ پیاز پیدا ہوتا ہے سندھ کی فصل ختم ہو جائے تو پنجاب کی فصل منڈیوں میں آ جاتی ہے اور جب پنجاب سے فصل کم ہو جائے تو خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے پیاز منڈیوں تک پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں پیاز کا بحران ہے خاص کر
اس وقت لال پیاز بحران کا شکار ہے جس کی وجہ بلوچستان کے سیلاب ہیں جن کی وجہ سے پیاز کی فصل تاخیر کا شکار ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ پیاز اس وقت مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔ اسے دگنی قیمتوں میں فروخت کیا جا رہا ہے ۔ حکومت پاکستان کی ایکسپورٹ اینڈ امپورٹ پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ معلومات کے مطابق اس وقت پیاز ایران اور تاجکستان سے منگوائی جا رہی ہے، جب کہ ستمبر سے سندھ سے پیاز مارکیٹ میں آنا شروع ہو جاتا ہے جو اپریل تک چلتا ہے۔ وفاقی اداروں کو پیاز کی سمگلنگ روکنے کی بھی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں تبدیلی ہو رہی ہے اور لوگوں کی آمدن اور روزگار میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نظر نہیں آ رہا ۔ دن بہ دن معاشی حالات میں سختی آئے گی جس سے مزید افراتفری پیدا ہو گی ، ملک کے سیاسی حالات مزید خرابی کی طرف بڑ رہے ہیں ، مذہبی ، سیاسی جماعت کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ہڑتال کی بھی کال دے رکھی ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی حالات ٹھیک نہیں لیکن وہاں کی عوام کو روزگار کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات مہیا ہیں اور ان کے بچوں کا مستقبل روشن ہے ۔ ان حالات میں حکومت کی کیا پالیسی ہو گی وہ واضح نظر نہیں آ رہی ۔ انٹر نیشنل مالیاتی ادارے کی طرف سے دبائو کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں ٹیکس انیلیسس کے مطابق لمبا چوڑا شارٹ فال کا سامنا ہے، ٹیکس شارٹ فال جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بن رہا ہے جو کہ ایک کہ وارننگ صورتحال ہے۔ ان 70 سال میں کسی بھی سیکٹر کو گروتھ نہیں ملی ، کئی بڑے ادارے قائم کئے گئے اور آج ان اداروں کی نج کاری کی جا رہی۔ نج کاری مکمل ہونے کے بعد بھی حکومت اپنے قرضوں سے نجات حاصل نہیں کر سکے گی کیوں کہ بنیادی مسائل جس میں رشوت خوری، لاقانونیت اور طاقتور کو غیر قانونی طور پر تحفظ فراہم کرنا، ملکی سلامتی کے لئے خطر ناک بن چکے ہیں۔ ایسے حالات سے نکلنے کے لئے ان اقدامات پر ورکنگ ضروری ہے جس سے فی کس آمدنی میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ 10کھرب سے زائد ذخائر اور زرعی خود مختاری 1ارب روپے کا قرضہ نہ اتار سکی۔ ایگریکلچر سیکٹر روزگار دے رہا تھا اور اب مافیا کی انٹری نے اس سیکٹر کو ہائی جیک کر لیا ہے ۔ لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ اس وقت اور آنے والے دنوں میں مزید مشکلات درپیش ہوں گی جو ملک میں افراتفری کا باعث ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button