ColumnTajamul Hussain Hashmi

چھ جماعتوں کا الائنس

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
چھ سیاسی جماعتوں ، جو اس وقت حزب اختلاف ہیں، ان پر مشتمل گرینڈ الائنس کے رہنمائوں نے بلوچستان کے شہر پشین میں جلسے کو آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے اپنی تحریک کا آغاز قرار دیا ہے جلسے کا انعقاد قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کیا۔ اگرچہ شدید بارشوں کے باعث جلسہ گاہ میں پانی کھڑا ہونے سے نہ صرف زمین پر لوگوں کے لئے بیٹھنا ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جلسے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور شرکاء نے مقررین کی تقریروں کو کھڑے ہوکر سنا۔ اس الائنس میں تحریک انصاف ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین اور سنی تحریک شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ابھی تک کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ۔ مولانا کی انٹری الارم ثابت ہو گی ۔ کوئٹہ میں جمعہ کے روز اپوزیشن کی ان جماعتوں نے ’ تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو الائنس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ پشین میں منعقدہ جلسہ عام سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اخترمینگل، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب ، مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس ، سنی تحریک کے صدر علامہ محمد حامد رضا ، شیر افضل مروت اور جماعت اسلامی بلوچستان کے نائب امیر ڈاکٹر عطا الرحمان نے خطاب کیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان میں آئین اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنی ہوگی اور جو بھی جرنیل، جج، جرنلسٹس یا کوئی اور اس کو تسلیم نہیں کرے گا تو ہم اس کو مردہ باد کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ بھی آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ان کو ہماری تحریک کا ساتھ دینا چائیے۔ یہ الحاق کتنا کامیاب ہو گا کچھ کہنا قابل از وقت مناسب نہیں ہو گا ، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قیام کے فوراً بعد ہی تگڑی اپوزیشن کی طرف سے اسمبلی میں سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی نعرے لگنے شروع ہوئے، پاکستان تحرک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں اپوزیشن کے رہنمائوں پر کیسز اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا تھا ۔ اس وقت کی اپوزیشن نے اسمبلی میں ہی احتجاج کو جاری رکھا ۔ عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ، مہنگائی کے اضافہ اور کرونا کی وجہ
سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ، اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے اتحاد نے قانونی طریقے سے پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھج دیا۔ ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ موجودہ حکومت کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ؟ بظاہر یہ اتحاد حکومت پر اپنا دبائو بڑھانے میں کامیاب ہو سکتا کیوں کہ اس اتحاد میں وہ جماعتیں شامل ہیں جو پی ڈی ایم کے ساتھ شامل رہیں اور وہ پی ڈی ایم کی تمام پلاننگ سے با خوبی واقف تھیں اس لئے یہ اتحاد بھی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ انتخابات کے نتائج کو لے کر قائم ہونے والا اتحاد حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا ۔ اس بار آزاد امید وار جو پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں ماضی میں استعفیٰ دینے والی غلطی کبھی نہیں دہرائیں گے ۔ فارم 45 اور فارم 47 کو لے کر بننے والا اتحاد حکومت کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ سیاسی اتحاد عوام کی نظر میں مفادات کی جنگ ہے۔ 16 ماہ کی حکومتی کارکردگی عوام کے سامنے ہے ۔ مہنگائی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ ملکی ڈیفالٹ کے بیانات پر قوم کو بھروسہ نہیں رہا اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کی عوامی ٹیکسز پر من پسند پروٹوکول اور غیر ملکی دورے ، تعمیرات کے فنڈز میں لوٹ مار اور سبسڈی کے مزے ہیں ۔ کسی بھی اتحاد سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا ۔ اتحاد کی کامیابی کے بعد یہ بھی وہ کام شروع
کرتے ہیں جو ماضی والوں نے انجام دیئے ہوتے ہیں ۔ آج کل مسلم لیگ ن کے چند رہنما اپنی ہی حکومت کے لئے روٹھے روٹھے بیانات دے رہے ہیں ، ایسا تاثر پیدا کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید میاں نواز شریف اس حکومت سے راضی نہیں ۔ ایسے بیانات 16 ماہ کی اتحادی حکومت میں نظر آتے رہے ۔ میرے مطابق ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، سب کچھ او کے ہے ۔ رہنمائوں کی طرف سے اس تاثر کا فی الحال عوام پر کوئی اثر نہیں ہے لیکن مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اپنے ووٹر ، سپورٹر کو اس تاثر سے اپنے ساتھ جوڑنے کیلے استعمال کر رہی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ملکی معیشت سے جوڑے حالات سے با خوبی واقف ہے ۔ غیر ملکی قرضوں کے بغیر چلنا انتہائی مشکل کام ہے ، قرضوں کے انبار کا بوجھ عوام کو مہنگائی کی صورت میں برداشت کرنا پڑھ رہا ہے ۔ دنیا بھر میں خانہ جنگی کے اثرات ہماری معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں ۔ ایسی صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنا بیانیہ فروخت کرنے میں آسانی ہے اور عوام کو متحرک کرنا بھی آسان ہے ، جس میں نیا اتحاد ممکن طور پر کامیاب ہو گا لیکن تمام سیاسی جماعتیں کا منشور اگر وطن کی ترقی اور اس کے آئین کا تحفظ مقصود ہے تو پھر ان کو قومی مفادات کیلئے ایسے اتحادیوں سے دور رہنا چاہئے جن کے ذاتی مفادات ہیں جس سے جمہوری نظام کو خطرہ ہو بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معیشت اور اس کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو ختم کریں اور ملکی معیشت کے فیصلوں پر اپنی ساری توجہ مذکور کریں ۔ عوامی ریلیف اور روزگار کے لئے اقدامات کریں ۔ راتوں میں ملاقاتوں والے فارمولہ پر عمل کی بجائے عوامی منڈیٹ والے فارمولہ پر کام کریں ۔ اس وقت درپیش مسائل کا حل کسی جماعت کے پاس نہیں لیکن جو جماعت ملکی تحفظ اور اس کی معیشت کے لئے بہتر روٹ ترتیب دے گی اس کو مزید وقت دیا جائے وہ عوام کو بھی واضح ہو جائے گا ، جوڑ توڑ والی حکومت ملکی معیشت کے لئے کوئی بہتر فیصلے کرنے کی کبھی اہل نہیں ہو سکتی ۔ جتنے بھی اتحادی مل جائیں کامیابی ممکن نہیں ہو سکتی ، کامیابی کیلئے ذاتی مفادات سے بلا تر ہو کر ملکی سالمیت کے لئے کام کرنا ہو گا اور اداروں کو سیاست سے دور اور آئین ، انصاف پر فیصلے کرنے ہوں گے ۔ سیاسی جماعتوں کے بھرتی کئے ہوئے افسروں کے اثاثوں کی چھان بین اور سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ سیاسی کش مکش سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی فیصلوں کے زیر اثر ہونا ہے اگر ادارے آئین پاکستان کو مقدم رکھیں گے تو ان کو کسی فیصلے کو کرنے میں مشکلات نہیں ہوں گی ۔ اداروں کو کس طرح سیاسی بنایا گیا اس حوالہ سے سینئر صحافی و لکھاری رئوف کلاسرا صاحب نے اپنے کلام میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتوں نے اداروں کو کمزور کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button