ColumnTajamul Hussain Hashmi

شعبہ لاء سے وابستہ خواتین کی شرح

تجمل حسین ہاشمی
اس وقت 7سپیریئر کورٹ کے 126ججز میں سے 119مرد ہیں جبکہ باقی صرف سات خواتین ہیں۔ لہٰذا، خواتین ججز کل کام کرنیوالے ججز کا صرف 5.5فیصد بنتی ہیں۔ مردم شماری کے مطابق ملک میں خواتین کی آبادی 49.2 فیصد ہے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں عدالتوں سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں شعبہ انصاف میں کام کرنے والی خواتین کے اعدادوشمار کا خلاصہ کرتی ہے ، عدالتوں میں کام کرنیوالی خواتین ججوں، وکلائ، پراسیکیوشن افسروں اور انسانی وسائل کے اہلکاروں کی تعداد کو اجاگر کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 3142ججز اور جوڈیشل افسران کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 2570مرد اور 572خواتین ہیں جو کل کام کرنیوالے ججوں کا 18فیصد ہیں۔ انصاف کے شعبہ میں خواتین کی شرح انتہائی کم ہے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت عدلیہ کے اوپری درجے پر 126ججز کام کر رہے ہیں جن میں سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی شریعت کورٹ اور پانچ ہائیکورٹس شامل ہیں۔ ان 126ججوں میں سے 119مرد جج ہیں جب کہ صرف سات خواتین جج ہیں۔ لہٰذا، خواتین ججز اوپری درجے کے ججوں کی کل کام کرنیوالی طاقت کا صرف 5.5فیصد بنتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضلعی عدلیہ کی سطح پر کل 3,016جوڈیشل افسر کام کر رہے ہیں۔ ان افسروں میں سے 2451مرد اور 565خواتین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کل جوڈیشل افسران میں 19فیصد خواتین ہیں۔ رپورٹ میں خواتین جوڈیشل افسروں کے عہدوں کی ضلع وار تفصیلات بھی فراہم کی گئیں، جس میں انصاف کی انتظامیہ میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کیا گیا۔ مزید برآں، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں مختلف صوبائی بارز میں 230,879وکلاء رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 198,100وکلاء مرد ہیں جبکہ 40,000وکلاء خواتین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اندراج شدہ وکلاء کی کل تعداد کا تقریباً 17فیصد خواتین وکلاء ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹس سے جمع کئے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ملک میں 2210 پراسیکیوشن افسر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 1869افسر مرد اور341افسر خواتین ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پراسیکیوشن افسروں کے کل نیٹ ورک کی تعداد کا صرف 15فیصد خواتین ہیں۔ لاء کے شعبہ میں خواتین کی شرح انتہائی کم ہے۔ ایڈووکیٹ سندھ ہائیکورٹ محمد عامر بیگ کا کہنا تھا کہ سابقہ چیف جسٹس چودھری افتخار احمد کی لاء موومنٹ کے بعد شعبہ لاء سے وابستہ خواتین کے لئے کئی اقدامات کئے گئے، جو کافی اہم تھے۔ اس موومنٹ کے بعد وکلا خواتین اور مرد وکلا کی بہتری کیلئے اقدامات کئے گئے۔ اس وقت تمام صوبائی بار ایسوسی ایشن اور ضلعی بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے خواتین وکلاء کو بار الیکشن میں مکمل نمائندگی دی جا رہی ہے اور دیگر سہولیات کیلئے بہتر اقدامات کر رہی ہیں، ایڈووکیٹ محمد عامر بیگ کا مزید کہنا تھا کہ شعبہ لاء سے منسلک خواتین کیلئے محترم بیرسٹر شاہدہ جمیل کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ بیرسٹر شاہدہ جمیل پہلی خاتون تھیں جنہیں 2000میں وفاقی وزیر برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق اور پارلیمانی امور کے طور پر تعینات کیا گیا تھا، ساتھ ہی وہ سندھ میں صوبائی وزیر قانون کے طور پر تعینات ہونیوالی پہلی خاتون تھیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم سیکٹر میں خواتین کی خواندگی کی شرح مرد کی نسبت بہت کم ہے، اس کے بعد بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایل ایل بی کو پانچ سالہ ڈگری پر منتقل کرنے کے فیصلہ پر شعبہ لاء کی طرف خواتین سٹوڈنٹس کے رجحان میں کافی کمی دیکھی گئی ہے، لاء کے شعبہ کو دوسرے شعبوں سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں عام شعبہ میں خواتین کو ورکنگ میں مشکلات کا سامنا ہے اور اگر ہم شعبہ قانون کی بات کریں تو وہاں پر حالات یکسر مختلف ہیں ، خواتین کو معاشرتی طبقاتی تفریق کا سامنا رہتا ہے ، بظاہر ہمارے ہاں تعلیم پیسہ کمانے کیلئے حاصل کی جاتی ہے اور لاء کے شعبہ کے حوالہ سے رجحانات بھی واضح ہیں، اس شعبہ میں پیسہ کمانا مشکل سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ جہاں آپ کی جان کو بھی خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب تک آپ کا نام ٹاپ لسٹ میں شامل نہیں ہو جاتا اس وقت تک پیسہ مشکل سے ملے گا۔ ہمارے ہاں عدالتوں میں کیسز کی بھرمار ہے، بھر وقت اور جلدی انصاف مہیا کرنا انصاف شعبہ کیلئے امتحان بن چکا ہے، دوسری طرف سینئر ججز کو مشکوک خطوط کا سلسلہ بھی جاری ہے، ان مشکوک خطوط کے حوالہ سے کوئی پیش رفت میڈیا پر نہیں آئی، یہ خطوط آئین پاکستان پر وار تصور کیا جانا چاہئے۔ عدالتیں حق پر فیصلہ کرتی ہیں، ججز آئین پاکستان کے پابند ہیں، کسی فرد کی مرضی پر فیصلے نہیں کر سکتے ، مشکوک خطوط فیصلوں کو متاثر نہیں کر سکتے۔ سیاسی کش مکش کی وجہ سے مقتدر حلقوں کی ذمہ داری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عدالتوں پر بھی سیاسی مقدمات کا اچھا خاصا بوجھ ہے۔ سیاسی جماعتیوں کے قائدین کی طرف سے عدالتوں پر ماضی میں تنقید کی جاتی رہی ہے ، عدلیہ مخالف تقریریں کی جاتی رہیں۔ بظاہر ایسی تنقید کا فیصلوں پر اثرانداز ہونا مقصود تھا یا کچھ اور، عدالتیں آئین پاکستان کی پابند ہیں۔ فیصلے آئین کی رو کے مطابق ہوتے رہیں گے، زندہ باد رہنے کیلئے سچائی کے ساتھ کھڑے ہونا پڑتا ہے، فیصلے تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ طاقتور حلقوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button