ColumnTajamul Hussain Hashmi

دو کام ضرور کریں

تجمل حسین ہاشمی
ان دو کاموں سے اپنی زندگی کو پرسکون بنا لیں۔ زندگی جتنی بھی ہے اس کو نعمت سمجھیں۔ روز اول سے کامیابی کا واحد راستہ اسلام ہے۔ اسلامی تعلیمات کی پیروی میں سکون و امن ہے، زندگی کی الجھنوں اور مصیبتوں کا واحد حل اسلامی تعلیمات کی پیروی میں ہے۔ اطمینان اور سکون کیلئے آپ کو دو کام کرنے ہیں۔ پہلا، آپ نے کبھی بھی اپنے دکھوں کا تذکرہ بار بار نہیں کرنا، اکثر لوگ مثال دیتے ہیں کہ "کپڑا اٹھانے سے اپنا پیٹ ہی نظر آتا ہے” اپنا کپڑا کسی کے سامنے مت اٹھائیں۔ اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کا اظہار بھی اپنوں سے ہوتا ہے لیکن دور حاضر میں اپنوں سے کئے جانے والے اظہار کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ انسان دوسرے کی کمزوری پر ہی بلیک میلنگ پر اتر جاتا ہے۔ آج کل لب کشائی انسان کیلئے مزید مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔ سچ گوئی کی جگہ وڈیو، سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ پہلے وقت میں لوگ انسانوں کا حوالہ لیتے تھے اور اب انسانوں کے حوالہ پر کسی کو یقین نہیں رہا۔ خاندان ضمانت تھے، اب خاندان بھی بٹ چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور جھوٹی، غیر شرعی معلومات نے سچائی کو مدھم کر دیا ہے۔ حسرتوں نے انسانوں کی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے۔ دوسرا، دوسروں کی کامیابیوں کا بار بار ذکر کرکے انسان خود کو مایوس کر رہا ہے، دوسروں کی آسائشوں کا بار بار ذکر ناشکری، طمع اور لالچ کو بڑھا رہا ہے۔ ناشکری انسان کی بری دشمن ہے، وہ انسان کو حقیقی خالق سے بھی دور کر دیتی ہے اور دنیا میں بھی رسوا کراتی ہے۔ شاکر رہنے سے دونوں جہانوں میں کامیابی ہے۔ اس وقت ہر کوئی یہی شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ لوگ قابل یقین نہیں رہے۔ اپنی بوٹی کے چکر میں دوسرے کے بکرے کو ذبح کرا دیتے ہیں۔ معاشرہ میں ایسی سوچ نظام کی ناکامی کا باعث ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام طاقتور کو مزید طاقت دیتا ہے۔ وہاں غیر مساوات میں اضافہ یقینی ہے۔ ہمارے ہاں دولت کی غیر مساوی تقسیم سے معاشرتی مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ طاقتور ریئل اسٹیٹ کنٹرول سے باہر ہیں۔ حکومتی اداروں کا کنٹرول یا رٹ نہ ہونے سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ادارے طاقتوروں کے زیر اثر ہیں، جن کو آئین کے زیر اثر ہونا چاہئے تھا وہ مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کاروباری مارکیٹوں پر طاقتور قابض ہیں۔ سرکاری احکامات ہوا کی نذر ہیں۔ اعلیٰ ادارے عجیب معاملات میں الجھ چکے ہیں۔ اس وقت بنیادی مسائل لاپرواہی کا شکار ہیں۔ ایسے حالات سے نکلنے کیلئے انصاف پر مبنی سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اس معاشرتی تفریق کی اب کاری ہے جس سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، قانون کی رٹ ختم ہو جاتی ہے، اس کے بعد انسانی حقوق کی پامالی کی بنیاد پر انٹر نیشنل طاقتیں ایسے ممالک پر قابض ہو جاتی ہیں۔ پہلے ان کو معاشی سرکل میں جکڑا جاتا ہے، جس سے افراتفری پیدا کی جاتی ہے۔ نااہل افراد اداروں کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔ ملکی مفادات کے منصوبوں کو سیاست کی نذر کیا جاتا ہے، پھر ان کو کوڑیوں کے دام فروخت کرایا جاتا ہے۔ قرضوں کا غیر پیداواری منصوبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب ملک کو غلامی میں دھکیلتے ہیں۔ ہمارے ہاں بنیادی حقوق اور سہولتوں کو ترقی کا نام دیا جاتا ہے، یہ کم علمی ہمارے ہاں عام ہے۔ ایسے بیانیے بنائے جاتے ہیں جو ملکی مفادات اور سلامتی کے متضاد ہیں۔ کئی اسلامی ممالک ایسے ظلم کا شکار ہوئے ہیں، جہاں پر کئی کئی سال سے جنگ جاری ہے۔ جنگ کے اثرات آج بھی ان کی نسلوں میں موجود ہیں، جن کو تحفظ اور سکون دینے کے وعدے پر ان کو گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا۔ ان ممالک میں آج بھی جنگ جاری ہے۔ وہ ممالک اب معاشی طور پر بکھر چکے ہیں۔ وہ قوم نہیں رہے، مسائل نے ان کی نسلوں کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔ وہاں کی حکومتیں غیر ملکی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیسے بچا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی قائدین کئی سال ایک دوسرے کیخلاف اقتدار کے حصول کی جنگ لڑتے رہے۔ آمر بھی حکمران بنا لیکن معاشی صورت حال بہتر نہ ہوسکی۔ آج کل مفاہمت کا دور ہے لیکن مہنگائی اور روزگار میسر نہیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں غریب کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے، قیام کے وقت بھی روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی مسائل تھے اور آج 70سال میں بھی وہی مسائل ہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان مسائل سے نکلنے کیلئے قوم کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ سب سے اہم اور آخری کام جو کامیابی اور معاشی تنگ دستی سے نجات دے گا۔ اپنے ٹارگٹ کا تعین کریں اور چھوٹے ہدف سے کام شروع کریں۔ یہ وقت لمبی جمپ کا نہیں ہے، حکومت کو بھی گھریلو صنعتوں پر ریلیف پیکیج مستقل بنیادوں پر دینا ہوگا۔ خالی زمینوں کو قابل کاشت بنانے میں سرکار کو اقدامات کرنے ہوں گے۔ انتخابات کے بعد بھی مارکیٹ ہیجان کا شکار ہے۔ اس ہیجانی صورت حال کے ذمہ دار وہی افراد ہیں جو ہر حکومت سے اپنے مفادات کیلئے فیصلے کراتے ہیں اور اعلیٰ عسکری قیادت کے سامنے خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں۔ سبسڈی پر اربوں کماتے ہیں، ایکسپورٹ، امپورٹ کی پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہوتے ہیں، تجویز جتنی مرضی خوب صورت ہو جب تک عمل نہیں ہوگا کامیابی کا راستہ ہموار نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button