ColumnM Riaz Advocate

سیاسی گیدڑ سنگھی

محمد ریاض ایڈووکیٹ
برصغیر پاک و ہند میں کچھ روایات اور حکایات ایسی ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ تمام باتیں حقیقت پر مبنی ہیں یا نہیں مگر انکو ماننے والوں کی ان گنت تعداد موجود ہے۔ جیسا کہ گیدڑ سنگھی کا مالک بن جانے سے دولت، شہرت کے دروازوں کا کھل جانا، اقتدار کا ہما جس کے سر بیٹھ گیا اس کو مسند اقتدار پر بیٹھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دولت کی دیوی کا مہربان ہونا حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ گنجا پن کو بھی خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ گیدڑ سنگھی کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کوئی عامل یا جوگی گیدڑ سنگھی اور سانپ کے منکے کے بنا مکمل نہیں ہوتا۔ اسے انگریزی میںJackal horn talismanکہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس بھی اصلی گیدڑ سنگھی ہوگی، دولت اس کی غلام بن جائے گی اور خوشحالی اس کے گھر میں ڈیرہ ڈال لے گی۔ لیکن اس میں کتنی حقیقت ہے اس بات کا کوئی واضح ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ گیدڑ سنگھی ایک خاص قسم کے گیدڑ کے سر میں نکلنے والا ایک سینگ ہوتا ہے۔ یہ کسی بڑے دانے کی طرح ابھرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ عامل حضرات اس سینگ کو اس کی جڑ سمیت گیدڑ کے سر سی نکال کر باقاعدہ حنوط کرنے کے بعد سندور میں رکھتے ہیں۔ یہ بہت سے مخفی اثرات کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس کی اصل پہچان یہی ہے کہ گیدڑ کے جسم سے جدا ہونے کے باوجود زندہ رہتی ہے اور اس کے بال بھی مستقل بڑھتے رہتے ہیں۔ اس کی دس مختلف اقسام ہیں جن میں سام گیدڑ سنگھی، چھپا گیدڑ سنگھی، لِنگ گیدڑ سنگھی، کاما گیدڑ سنگھی، بیض گیدڑ سنگھی، سہام گیدڑ سنگھی، حبش گیدڑ سنگھی، ماتا گیدڑ سنگھی، موہنی گیدڑ سنگھی، ناکیلی گیدڑ سنگھی ہیں۔ البتہ علم حیاتیات و حیوانات کے ماہرین گیدڑ سنگھی کے مخفی اثرات کو نہیں مانتے۔ ماہر حیوانیات کی مطابق گیدڑ سنگھی ایک بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ٹیومر ہوتا ہے جو کسی گیدڑ کے سر میں نکل آتا ہے۔ اس کو گیدڑ کے سر سے الگ کرنے پر اس کے بڑھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ٹیومر پیدا کرنے والے بیکٹیریا اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں اور جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑ سنگھی بڑھ رہی ہے۔ باوجود اس کے بندہ ناچیز ان حکایات و روایات کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اگر بالفرض درج بالا روایات، توہم پرستانہ حکایات مان بھی لی جائیں تو اب اصل کھوج یہ لگانے کی ضرورت ہوگی کہ حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے محسن نقوی، فیصل واوڈا، محمد اورنگزیب، احد چیمہ اور انوار الحق کاکڑ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی موجود ہے جو ان افراد کو بغیر کسی سیاسی وابستگی بھاری اکثریت یا بلامقابلہ منتخب کروایا گیا۔ جناب محسن نقوی صاحب کو ہی دیکھ لیں ، موصوف قسمت کی ایسے دھنی ہیں کہ تین ماہ کے لئے نگران وزیر اعلی بنائے گئے اور ایک سال سے زائد عہدہ براجمان رہے، وزارت اعلیٰ ختم ہونے سے پہلے ہی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل میں بھی صف اول کی وزارت داخلہ کے اہل قرار پائے۔ فیصل واوڈا صاحب سال 2018ء میں سیاسی میدان میں نمودار ہوئے اور پی ٹی آئی ٹکٹ پر خاص دست شفقت کی بناء پر کراچی کی نشست پر شہباز شریف جیسی منجی ہوئی سیاسی شخصیت سے فتح یاب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچائے گئے۔ پھر موصوف نے اپنی ہی پارٹی کی منجی ٹھوکنی شروع کردی اور آج تک اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور گیدڑ سنگھی کے حامل اس شخص نے قسمت ایسی پائی کہ انکے سیاسی مخالفین یعنی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے با جماعت ہوکر ان کو سینٹر منتخب کروایا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب صاحب کی بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ اب تو یہ رویت ہی بن چکی ہے کہ درآمد شدہ شخص کو قومی خزانہ پر بٹھایا جاتا ہے۔ اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ درآمد شدہ وزیرخزانہ کی تعیناتی کے لئے شائد وقت کے وزیر اعظم سے مشاورت بھی نہیں کی جاتی ہوگی۔ چاہے وہ شوکت عزیز، شوکت ترین ، حفیظ شیخ یا پھر محمد اورنگزیب۔ ان مذکورہ حضرات کی پاکستان مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے لئے وہ کون سی خدمات ہیں جس بناء پر سیاسی جماعتیں ان کو پارلیمنٹ کے ایوان تک پہنچاتی ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی ہی یہی رہی ہے کہ وہ غیر سیاسی افراد کو پارلیمنٹ تک پہنچاتی رہتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کے اپنے دیرینہ ساتھی اس قابل نہیں ہوتے کہ انکو پارلیمنٹ تک پہنچایا جائے یا پھر دیرینہ ساتھی صرف عدالتوں میں دھکے کھانے، جیلوں میں دال کھانے، جلسوں میں پولیس کی مار کھانے کے کام کے لئے اپنے ساتھ چپکائے جاتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ چپکے رہنے والے دیرینہ ساتھیوں کے پاس گیدڑ سنگھی نہ ہو؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button