ColumnRoshan Lal

دو جنگیں اور دو یو این، قراردادیں

روشن لعل
مارچ 2024میں ، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے دو علاقوں میں جنگ بندی کی قرار دادیں منظور کیں۔ بدقسمتی سے جنگ بندی کی ان دونوں قرار دادوں کا ایک جیسا حشر ہوا۔ سیکیورٹی کونسل کی منظور کردہ دو قراردادوں میں ایک کے متعلق تو ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ قرارداد غزہ میں جنگ بندی سے متعلق ہے مگر دوسری قرارداد کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ اسے کس علاقے میں جنگ بندکرانے کے لیے منظور کیا گیا۔ جس قرارداد کے متعلق بہت کم لوگوں کو علم ہے یہ قرارداد حالانکہ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد سے پہلے منظور ہوئی مگر اس کا ذکر صرف پاکستانی ہی نہیں بیرونی میڈیا میں بھی بہت کم سننے کو ملتا ہے۔ جس جنگ کو روکنے کی قرارداد پہلے منظور ہوئی اس کا ذکر کرنے سے قبل اس جنگ کی بات کر لیتے ہیں جو 7اکتوبر 2023کو حماس کے اسرائیل پر 5000 راکٹ برسانے اور اسرائیلی علاقوں میں گھس کر وہاں سے 253 لوگ اغواکرنے سے شروع ہوئی ۔حماس کی اس کاروائی کے بعد اسرائیل نے وہی کچھ کیا جو وہ قبل ازیں حماس کے اس طرح کے حملوں کے جواب میں کر چکا تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے2005 میں غزہ پر 38 برس سے جاری اپنا قبضہ ختم کر کے اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کیا تھا۔ اس کے بعد حماس نے سب سے پہلے 2006 میں ایک اسرائیلی فوجی اغوا کیا اور پھر 2008 میں غزہ سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ پھینکنے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حماس نے 2012 ، 2014 ، 2018 ، 2021 اور 2022 میں جب بھی اسرائیل پر راکٹ پھینکے اس کا جواب اسرائیل نے تقریباً اسی طرح دیا جس طرح وہ حالیہ جنگ کے دوران دے رہا ہے۔ حماس نے جب بھی اسرائیل پر راکٹ حملے کیے اس سے کچھ اسرائیلیوں کی ہلاکتیں ضرور ہوئیں مگر اسرائیل کے جوابی حملوں سے فلسطینیوں کاجانی نقصان سیکڑوں ہزاروں کی تعداد تک ہوتا رہا۔ مثال کے طور پر جولائی 2014 میں حماس نے تین اسرائیلی نوجوانوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا، اس کے جواب میں اسرائیل نے مسلسل سات ہفتے غزہ پر جو میزائل برسائے اور حماس نے اسرائیل پر جو راکٹ داغے اس سے اسرائیل کے تو صرف 73 لوگ ہلاک ہوئے مگر فلسطینیوں کو اپنے 2100 شہیدوں کے جنازے اٹھانا پڑے ۔اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر راکٹ برسائے جانے کے بعد جوابی اسرئیلی حملوں سے اب تک 32975 سے زیادہ فلسطینی شہید اور 76000 کے قریب زخمی ہوچکے ہیںجبکہ اس دوران اسرئیل کے 1139 شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی کی غزہ پر بے رحمانہ بمباری سے وہاں عوام کی ذاتی اور سرکاری املاک کی جو تباہی ہوئی، ورلڈ بنک نے اس کا تخمینہ 18.50 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بحیرہ روم کے ساحلی حصہ پر واقع 40 کلومیٹر لمبے اور مختلف مقامات پر 6 سے 10 کلو میٹر چوڑے غزہ میں اوسطاً 5500فی مربع کلومیٹربسنے والی فلسطینیوں کی زندگی عام حالات میں بھی کس قدر ناخوشگوار ہوتی ہے ۔حماس کے حملوں کے جواب میں ان فلسطینیوں کو جن اسرائیلی مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی جھلکیاں دنیا بھر کے میڈیا میں نظر آتی رہتی ہیں۔ یہ جھلکیاں دیکھ کر جو لوگ صرف اسرائیلیوں کے ہاتھ میں فلسطینیوں کا خون تلاش کرتے ہیں انہیں غور کرنا چاہیے کہ ان مظلوم فلسطینیوں کے خون کے چھینٹے کچھ اپنے لوگوں کے دامن پر بھی موجود ہیں۔
یہ بات انتہائی دکھی دل کے ساتھ بیان کی جارہی ہے کہ شاید اس کرہ ارض پر اس وقت فلسطینیوں کے خون سے ارزاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اب تک کی تاریخ میں تہذیبی شعور کے بلند ترین مقام پر تصور کی جانے والی دنیا ،فلسطینیوں کے خون کی ارزانی ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ نام نہاد مہذب دنیا ، غزہ میں جنگ بندی کے لیے، سیکیورٹی کونسل میںپیش کی گئی تین قراردادیں منظور کرانے میں ناکامی کی بعدآخر کار 25 مارچ کو ایک قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہوئی۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی گزشتہ تین قراردادوں کو ویٹو کے کرنے کے بعد امریکہ اس قرارداد کی منظوری کے وقت ہائوس سے غیر حاضررہا۔ امریکہ کے غیر حاضر رہنے سے غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد تو منظور ہو گئی مگر اس کے رویے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ جنگ بندی کے لیے نہ وہ خود اسرائیل پر کوئی دبائو ڈالے گا اور نہ ہی کسی اور کا دبائو قابل قبول کرے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہوکی خواہش تھی کہ امریکہ اس مرتبہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کو ویٹو کرے، امریکہ کی طرف سے قرارداد ویٹو نہ کیے جانے پر اسرائیل نے نہ صرف امریکہ پر ناراضی کا اظہار کیا بلکہ دنیا کو بھی یہ باور کرایاکہ یو این کی منظور کردہ قرارداد اسے جنگ بندی پر مجبور نہیں کر سکتی۔یواین کی جنگ بندی کی قرار داد کے بعد بھی اسرائیل کی غزہ میں کاروائیاں حسب سابق جاری ہیں۔ اسرائیل کے اس رویے میں دنیا کے لیے یہ پیغام پنہاں ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی چوتھی قرار داد گو کہ منظور ہوگئی مگر حقیقت میں اسے بھی نامنظور ہی سمجھا جائے۔ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل جس قسم کے رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے اس کے خاتمے کی امید اگر یواین کی قراردادوں پر نہیں تو کس پر رکھی جائے۔
اس وقت غزہ میں جنگ بندی کی امید ان اسرائیلی شہریوں کے علاوہ کسی اور پر نہیں رکھی جاسکتی جوہرزاروں کی تعداد میں بنیامین نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ان اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اگر غزہ میں کئی بلین ڈالر کے اسلحہ کی بمباری کرنے اور ہزاروں فلسطینیوں کا خون بہانے کے باوجود بھی حماس کے اغوا کردہ اسرائیلی شہریوں کی واپسی ممکن نہیں ہو سکی تو ہمیں یہ بمباری اور خونریزی نامنظور ہے۔ ان اسرائیلیوں کے مذکورہ موقف کا محرک اگرچہ ان کے ملک کی داخلی سیاست ہے مگر اس موقف میں غزہ کے ان باسیوں کے لیے خیر کا پیغام پنہاں ہے جن کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
کالم کی آخری سطروں میں قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے پہلے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 8 مارچ2024 کو سواڈان میں جاری خانہ جنگی ختم کرانے کی قرارداد منظور کی جسے فریقین نے ماننے سے انکار کر دیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ غزہ میں تو اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو شہید کر رہے ہیں مگر سوڈان میں کلمہ گو مسلمانوں کا خون اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں بہہ رہا ہے۔ غزہ میں اگر اسرائیلیوں کے ہاتھوں32975 فلسطینی شہید ہوئے تو سوڈان کے متحارب مسلمانوں نے ایک دوسرے کے کل تیرہ سے پندرہ ہزار لوگ قتل اور 35000 کے قریب زخمی کیے۔غزہ میں جنگ بندی کی امید بنیامین نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کرنے والے اسرائیلیوں پر رکھی جاسکتی ہے مگر سوڈان میں جنگ بندی کی امید کس سے وابستہ کی جائے ؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button