ColumnQadir Khan

بھارتی ملٹی فیز انتخابات اور عیسائی مخالف جذبات

قادر خان یوسف زئی
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔، تاہم مسیحی اقلیت کے لیے، تحفظات و خدشات کی پیش گوئی کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک اور مدت جیتنے کی امید ہے، تو دوسری جانب یہ امکان عیسائی مخالف جذبات اور تشدد میں اضافے کے ساتھ موافق ہے، مزید ظلم و ستم کے خدشات کو بڑھا رہا ہے۔ یہ تحفظات بے بنیاد نہیں ہیں۔ نئی دہلی میں قائم یونائیٹڈ کرسچن فورم ( یو سی ایف) نے گزشتہ سال بھارت میں مسیحوں کے خلاف 731حملے ریکارڈ کیے۔ بی جے پی کے کچھ لیڈروں کی طرف سے تفرقہ انگیز بیان بازی، بشمول وزیر داخلہ امیت شاہ کی مذہبی تبدیلیوں کے خلاف انتباہ، آگ کو ہوا دیتا ہے بھارت میں رہنے والے عیسائیوں کو تیزی سے باہر کے لوگوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جو ہندو انتہاپسندوں کی وجہ سے عیسائی کمیونٹی کے لیے خطرہ ہے۔ ان تحفظات و خدشات کی بنیاد قیاس کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے) نے تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ بھارتی شہریت حاصل کرنے والوں کے لئے بھی مشکلات ہیں ۔ چونکہ ترمیمی قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ سی اے اے مستقبل میں غیر ہندو برادریوں کو نشانہ بنانے والی قانون سازی کا بدترین مثال بن سکتا ہے۔
مسیحی برادری آئندہ انتخابات کے لیے خود کو تیار کر رہی ہے، خوف اور بے یقینی کی موجودہ فضا کے درمیان ایک پرامن اور ہم آہنگ بقائے باہمی کی امید روشنی کی کرن تلاش کرنے کی ضرورت پہلے سے کئی زیادہ بڑھ چکی ہے ۔19اپریل سے شروع ہونے والے بھارت میں آنے والے ملٹی فیز انتخابات، امید اور خدشات کے آمیزے میں ڈوبے ہوئے ہیں، جو ملک کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ خدشات 2008ء سے بڑھ گئے ہیں جب ایک ہندو پنڈت اور اس کے چار پیروکاروں کے قتل کے بعد مشرقی ریاست اوڈیشہ کے کچھ حصوں میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس قتل کا الزام مقامی مسیحیوں پر عائد کیا گیا اور اس کے انتقام میں کم از کم 101افراد کو ہلاک کر دیا، تاہم حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کے لیے، تشدد کا خوفناک تماشہ باقی ہے، جو سانحے کی یادوں کو تازہ کر دیتاہے اور مذہبی اقلیتوں میں کمزوری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے باوجود، اس ناخوشگوار واقعے کے داغ ابھی تک کچے ہیں، جو دوبارہ ہونے کے خدشات کو ہوا دیتے ہیں۔
آنے والے انتخابات ایک نازک موڑ پیش کر رہے ہیں۔ سوال دوبارہ اٹھ رہے ہیں کہ کیا بھارت سب کے لیے مذہبی آزادی کے اپنے آئینی وعدے کی پاسداری کرے گا؟ یا قوم پرستی کی لہر عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو مزید پسماندہ کر دے گی؟۔ دنیا کو ان پیش رفتوں کو قریب سے دیکھنا ہوگا۔ بھارت میں مذہبی اکائیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کا بڑھتا رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی ذمہ داری مودی ریاستی پالیسی پر عائد ہے۔ کیا وہ رواداری اور تکثیریت کا راستہ اختیار کریں گے یا تفریق کا؟ اس کا جواب نہ صرف عیسائیوں کی بلکہ ایک قوم کے طور پر بھارت کی شناخت کی قسمت کا تعین بھی کرے گا۔ منظر نامہ کچھ اس طرح کا بن رہا ہے کہ دیگر مذہبی اکائیوں کو ہر تہوار اور سرکاری سطح پر منائی جانے والے معاملات بالخصوص الیکشن میں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملنے والی اطلاعات تحفظات کو بڑھاوا دے رہی ہیں کہ بھارت انتخابات کے ایک ایسے دور کی تیاری کر رہا ہے، جہاں ملک کی مسیحی برادری کے لیے ماحول تنا کا شکارہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرستی کے عروج نے ملک بھر کی عیسائیوں میں بھی خوف اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ آنے والے انتخابات میں مودی کی جیت کے بڑھتے ہوئے امکان نے ان خدشات کو مزید تیز کر دیا ہے، کیونکہ ماضی میں ہونے والے بہت سے مسیحی ممکنہ حملوں اور ظلم و ستم کے تجربات کی وجہ سے ان میں خوف نظر آرہا ہے۔
واچ ڈاگ گروپس اور نگرانی کرنے والی تنظیموں کی حالیہ رپورٹس بھارت میں عیسائیوں کو درپیش صورتحال کی ایک سنگین تصویر پیش کرتی ہیں۔ عیسائیوں کے خلاف تشدد، ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، حالیہ برسوں میں حملوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ تعداد ایک پریشان کن کہانی بیان کرتی ہے، جس میں عیسائی اقلیت کو نشانہ بنانے والی پرتشدد کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار خاص طور پر اتر پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں نشانہ بنائے گئے تشدد، ہراساں کرنے، جھوٹے الزامات، اور پادریوں کی گرفتاریاں خدشات کی نوعیت کو نمایاں کرتے ہیں۔ مقامی کمیونٹی لیڈروں کے مطابق سیکڑوں خواتین کو پورے ضلع میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہجوم نے درجنوں گرجا گھروں، عبادت گاہوں اور مسیحیوں کے گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا، جس سے دسیوں ہزار لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔یہ واقعات نہ صرف عیسائیوں کی سلامتی اور فلاح و بہبود کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان کے عقیدے کی آزادی کے ساتھ ان کے بنیادی حقوق کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
بھارت کے عیسائیوں میں خوف اور عدم تحفظ کی داستان ہندو قوم پرستانہ بیان بازی کے زیر تسلط سیاسی ماحول سے مزید بڑھ گئی ہے۔ جبری تبدیلی کے الزامات، عیسائی مخالف جذبات، اور ایسے قوانین کا نفاذ جو مذہبی آزادیوں کو محدود کر سکتے ہیں، نے مسیحی برادری کے لیے مخالفانہ ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ جس سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال کا سایہ پڑ رہا ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے سائے سے خود ایسے سیکولر شہری بھی خوف زدہ ہوگئے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک اپنے جمہوری سفر میں ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ ہند و انتہا پسندوں کی جانب سے پیدا کردہ مذہبی جنونیت میں حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے لیے مذہبی آزادی، رواداری اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنا چاہیے تھا لیکن بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ، جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں اور وہ ایک تکثیری معاشرے کا فروغ بھارت کے جمہوری اخلاق کا لازمی جزو ہونے کا فریضہ انجام دینے کے بجائے خود ایک فریق ہیں ، حالاں کہ انہیں ایک قانون کے محافظ کے طور پر ہر شہر ی کی جان و مال کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button