ColumnNasir Naqvi

سیاسی برہمنوں کا امتحان؟

ناصر نقوی
آپ میری سوچ سے اتفاق کریں یا اختلاف، یہ حق اور استحقاق آپ کو حاصل ہے اس لیے کہ میں ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے اپنی دھرتی سے نہ صرف پیار کرتا ہوں بلکہ اس پر قربان ہونے کا جذبہ بھی رکھتا ہوں لیکن میرے پاس آپ یا کسی دوسرے کو اپنے سے کمتر پاکستانی قرار دینے کا نہ حق ہے اور نہ ہی کسی کو سند دینے کا اختیار، یہ سہولت صرف سیاستدانوں کو حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں حب الوطن تسلیم کریں اور جسے چاہیں غدارِ وطن کی ڈگری عطا فرما دیں۔ آج حالات ایسے ہیں کہ ہم سب کو پاکستان اور پاکستانیوں کے اعلیٰ ترین مفاد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ماضی میں کسی نے کیا کہا اور اس کا کردار کیا رہا، وہ مثبت نتائج کا باعث بنا کہ منفی، اس سے درگزر کرکے مستقبل کی تباہی کا باعث بننے والے مشترکہ دشمن کو نہ صرف پہچاننا ہے بلکہ اس کے عزائم کے خلاف صف بندی کرنی ہے۔ ہمارے سیاستدان ریاست اور سیاست کے نام پر’’ جمہوریت ‘‘ کے لبادے میں قومی سطح پر وہ کچھ کر گئے کہ اگر پاکستان نے دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کی تمنا کی تو دوسرے بین الاقوامی سازشوں پر اتر آئے۔ سیاست سے رواداری اور برداشت کا خاتمہ کیا گیا انہیں ماضی کے قصّے سنائے کبھی ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے ڈرا کر لولی لنگڑی جمہوریت کا سبق پڑھایا گیا، سب نامی گرامی سیاستدانوں بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور عمران خان نے ایک دوسرے کو ’’ سیکیورٹی رسک‘‘ کہا اور بعد میں سب نے دیکھا کہ جمہوریت جمہوری اقتدار کے استحکام کے لیے ’’ میثاق جمہوریت‘‘ بھی کیا گیا۔ لہٰذا ذمہ داروں نے نئی حکمت عملی بنائی۔ برسوں کی منصوبہ بندی سے ایک تیسری جماعت پیدا کر دی۔ جنرل حمید گل اور دیگر کے ویژن نے ایک مسیحا پیدا کر دیا، جنرل ضیاء الحق قبل ازیں غیر جماعتی انتخاب میں اس ’’ سپر سٹار‘‘ کو وزیراعظم بنانے کی پیش کش کر چکے تھے اور اس انتخاب میں سرفراز نواز، اختر رسول کی صوبائی سطح پر سیاست میں انٹری ہوئی تھی لیکن اس الیکشن سے پہلے ’’ پراجیکٹ عمران‘‘ کی ذمہ داری عوامی سطح پر یوسف صلاح الدین کی لگائی گئی تھی اور اس وقت وہ ’’ پلے بوائے‘‘ نئی نسل کے دلوں کی دھڑکن کے باوجود ’’ ورلڈ کپ‘‘ نہیں جیتے تھے۔ پھر بھی ان کو پذیرائی حاصل تھی لیکن ان کی جواں ہمتی کا گول سیاست نہیں تھا اس لیے جب یوسف صلاح الدین نے لاہور کے تاریخی موچی دروازہ میں جلسے کا اہتمام کیا اور وہاں بھاٹی سے جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ لایا گیا تو عمران خان دس منٹ سے زیادہ بول نہیں سکے بلکہ یوسف صلاح الدین کے اصرار پر بھی غیر جماعتی انتخاب میں امیدوار بننے کا اعلان نہیں کیا۔ میاں یوسف بہت تلملائے، لاہوری انداز میں روایتی گالم گلوچ بھی کی لیکن نتیجہ صفر رہا۔ اس واقعہ کے تین گواہ مرزا ضیاء اللہ، ذوالفقار حسین شاہ، اور یوسف صلاح الدین ابھی موجود ہیں۔ ہم تینوں دوست عمران کے دائیں بائیں سٹیج پر کھڑے تھے اس لیے تمام گفتگو ہم تینوں نے اپنے کانوں سے سنی، پھر جنرل ضیاء کے دور میں ہی عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس موقعے پر بھی آمر مطلق نے ریٹائرمنٹ واپس لینے کے لیے کہا اور پھر ایک مکمل سپر کرکٹ ٹیم کی موجودگی میں ٹیم سے تو وہ کچھ نہیں ہو سکا جس کی توقعات تھیں البتہ پاکستان یا عمران خان کی قسمت نے زور مارا اور بارش نے ’’ اگر مگر‘‘ کی پالیسی پر ہمیں سیمی فائنل میں دھکا دے دیا۔ اور کُبے کو لات راس آ گئی ہم نے سیمی فائنل جیتا اور فائنل میں بھی کرکٹ کے موجد انگلینڈ کو شکست دے کر 92ء کا ’’ ورلڈ کپ ‘‘ جیت لیا۔ اس کے بعد بھی وسیم اکرم کی قیادت میں ہم ’’ ورلڈ کپ‘‘ کے فائنل میں پہنچے لیکن میچ پاکستان کی بجائے ’’ بکیے‘‘ جیت گئے۔ شور و غوغا بلند ہوا، کمیٹیاں بھی بنیں لیکن محلے کی ’’ بڑی خالہ‘‘ کی طرح کمیٹی نکلی نہیں، اس وقت کے ’’ خالہ خالو‘‘ سب غائب ہو گئے اور قومی حافظہ کمزور ہے۔ اس لیے کسی نے کبھی ذکر تک نہیں کیا۔
ہمارے ہاں سیاست چمکانے کے لیے ’’ غداری‘‘ کا فارمولا چلتا نہیں، ہمیشہ دوڑتا ہے۔ صدر ایوب خاں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ’’ مادر ملت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو غداری کی سند جاری کی تھی اور بعدازاں ا ن کا ساتھ دینے والے ولی خان، مجیب الرحمان اور کئی دوسرے غدار قرار پائے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد صدر یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہ اعزاز دیا گیا لیکن ہماری ’’ سیاست اور ریاست‘‘ پر ہمیشہ برہمنوں کا قبضہ رہا، وجہ اس کی پہلی یہ ہے کہ اس خطے کے خان، ٹوانے، سردار، صنعت کار اور مالدار ہی فرنگیوں کی جائز ناجائز خدمتگاری میں اشرافیہ بن چکے تھے۔ جب جدوجہد آزادی آگے بڑھی اور مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح بنے تو پارٹی فنڈز کے لیے بھی ان ہی گنتی کے خاندانوں نے مدد کی تھی۔ باقی نواب محمود آباد اور خان لیاقت علی خان جیسے لوگ تو نہ ہونے کے برابر تھے۔ جبکہ عام مسلمان مالی طور پر آسودہ ہی نہیں تھا لہٰذا پاکستان بننے اور بابائے قوم کی رحلت کے بعد برہمنوں نے عام ورکرز کو ’’ شودر‘‘ سے زیادہ نہیں سمجھا، خان لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھی یہ کام دکھایا کہ پڑھے لکھے اور اہم کاروباری شخصیات کو دارالحکومت کراچی لے گئے ، لہٰذا ابتدائی دنوں میں ہی پاکستان’’ اَن بیلنس‘‘ ہو گیا۔ اس کے بعد خواہ ایوب خان کا صدارتی الیکشن تھا یا کوئی اور، عام آدمی سیاست سے باہر شودر بنا رہا اور صنعت کاروں، سرمایہ داروں نے سیاست کو مکمل کاروبار بنا دیا۔ جنرل ضیاء کی نوازشات سے الطاف بھائی اور نواز شریف منظر عام پر آئے لیکن دونوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ بڑے میاں محمد شریف نے ’’ اقتدار پاکستان‘‘ کے لیے راہ ہموار کی جبکہ الطاف بھائی کراچی، حیدرآباد، سکھر وغیرہ سے آگے مہاجر کارڈ نہیں کھیل سکے۔ انہیں اہلیان کراچی نے پیر و مرشد کا مقام دیا۔ لہٰذا وہاں ان کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ پڑھے لکھے اور مڈل کلاس کو سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پہنچنے کا راستہ تو نکلا لیکن وہ ’’ متحدہ قومی موومنٹ‘‘ بننے کے بعد بھی ’’ مہاجر کارڈ‘‘ پر محدود ہو کر رہ گئے اور پھر سب نے دیکھا کہ اختتام غداری کے الزام پر ہوا کیونکہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید وہ ناقابل شکست ہو چکے ہیں۔ جونہی یہ بات زبان زد عام ہوئی، ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور نئے بت تراشنے شروع کر دئیے۔ یہی نہیں ’’ غداری‘‘ کی سند ماضی کے حکمرانوں نے بلوچستان میں بھی نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کی۔ تمام سردار مختلف حکومتوں کا حصہ بھی رہے اور پھر انہیں ’’ غداری‘‘ سے بھی جوڑا گیا۔ زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے ممتاز اور منفرد رہنما اکبر بگٹی کو آپریشن آپریشن کھیلتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کوئی یہ جاننا نہیں چاہتا کہ جمہوریت کے نام پر ہونے والے گورکھ دھندے نے ہمیشہ نظریہ ضرورت میں مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا کیونکہ اجتماعی سوچ اور نظریہ کی بات کرنے والے بھی مفادات اور مستقبل کے حسین خوابوں میں اصولی مؤقف چھوڑ جاتے ہیں۔ عمران اقتدار سے پہلے بلوچستان کے اہم سیاستدان مسلم لیگ ن سے منحرف ہو کر بلوچستان عوامی پارٹی کا حصّہ بنے پھر سب قطار در قطار عمران خان کے اتحادی بن گئے لیکن اشارہ ہوا تو سکینڈوں میں چلتے بنے، تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ہو گئے۔ ان تمام میں ’’ شودر‘‘ ایک بھی نہیں، سب کے سب ’’ برہمن‘‘ ہیں۔ یہ تو اکٹھا ہی شودروں پر حکمرانی کے لیے ہیں۔ پنجاب میں ایک مثال ہے ’’ چیمے، چٹھے، کھان نوں وکھو وکھ، لڑن نوں اکٹھے‘‘ بالکل اسی طرح سیاست میں تمام برہمنوں کی رنگ برنگی بولیاں ’’ اقتدار‘‘ کے لیے ہم رنگ ہو جاتی ہیں۔
الیکشن 2024ء کا چاند نکلتے ہی سیاسی برہمنوں کے جوڑ توڑ شروع ہو چکے ہیں۔ ماضی کی دو بڑی پارٹیاں لفظی دھینگا مشتی کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ منشور اور الیکشن مہم سے پہلے ہی ’’ جیت‘‘ کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں باپ، کراچی میں ایم کیو ایم بظاہر سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیعت کر چکی ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ جنوبی پنجاب محاذ کے کرتا دھرتا خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت اپنے دیگر ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن کی رونق بڑھائیں گے۔ ایسا صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ موجودہ سیاسی میدان میں جس انداز میں بڑے برہمن میاں نواز شریف کو ریلیف مل رہا ہے اس نے عمران خان جیسے برہمن کی یاد تازہ کر دی ہے لہٰذا سیاستدانوں کے اندازے یہی ہیں کہ سیاسی فضا نواز شریف کے حق میں جا رہی ہے لہٰذا سیاسی پرندوں نے اپنے مفادات میں اڑان بھرنی شروع کر دی ہے حالانکہ ابھی تک نواز شریف سزا یافتہ مجرم کا سٹیٹس رکھتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک کے سفیروں نے بھی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں چونکہ یہ ملاقاتیں ’’ تحریک انصاف‘‘ کو نظرانداز کر کے کی جا رہی ہیں اس لیے پی ٹی آئی نے ایسی سرگرمی کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ عام سیاسی تاثر یہ ہے کہ 2018ء میں نواز شریف کے بغیر الیکشن ہوا تھا تو کوئی ردعمل نہیں آیا تھا اس لیے اس وقت بھی اگر عمران خان کو مائنس کر دیا جائے تو کچھ نہیں ہو گا جبکہ تمام سروے نتائج مختلف بتا رہے ہیں اس لیے کہ ’’ نیا الیکشن‘‘ ماضی کے حوالے سے بالکل مختلف ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو عمران اور تحریک انصاف پر پابندی عائد کر کے اسے دیوار کے ساتھ لگانے کا مشورہ دے رہے تھے انہوں نے بھی ’’ یوٹرن‘‘ لے لیا، حضرت مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں دشمن سامنے نہ ہو تو مقابلے کا مزہ نہیں آئے گا جبکہ راجہ ریاض ( سابق اپوزیشن لیڈر) کو بھی اب ’’ بیلٹ پیپر‘‘ پر ’’بلا‘‘ اور انتخاب میں تحریک انصاف نظر آنے لگی ہے۔ ’’ لمحہ موجود‘‘ جدید سوشل میڈیا کا دور ہے اب کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ عمران خان کا سوشل میڈیا بریگیڈ تمام تر کارروائیوں کے بعد بھی بہت مضبوط ہے۔’’ کور کمانڈر‘‘ ہائوس کی آتشزدگی کی با ت کرتے ہیں تو فوراً جون 2013ء کا واقعہ لوگوں کے ہاتھ تک پہنچ جاتا ہے کہ زیارت میں قائداعظم کی حقیقی رہائش گاہ جلائی گئی تو مجرم کیوں گرفتار نہیں کیے گئے۔ جی ٹی روڈ پر مسلم لیگ ن کی کامیابی کا تذکرہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر خبر آتی ہے کہ خرم دستگیر خاں کے والد نے جنرل ایوب خاں کے صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناحؒ کا انتخابی نشان ’’ لالٹین‘‘ کتیا کے گلے میں ڈال کر اسے ’’ مادر ملت‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ عمران کی غداری کے الزام میں ’’ سوشل میڈیا‘‘ پر زور دیا جاتا ہے ، اس ملک میں مادر ملت کو غدار اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو مجرم ٹھہرا دیا گیا تھا اگر عمران خان پر الزام لگ گیا تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ میرے مطابق الیکشن میں وہ رزلٹ نہیں حاصل ہو سکے گا جس کی امید کی جا رہی ہے۔ آنے والا الیکشن اس قدر آسان نہیں ہو گا بلکہ اس مرتبہ سیاسی برہنموں کا امتحان ہو گا۔ ’’ فیئر اینڈ فری‘‘ الیکشن کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک سیاسی پارٹیاں اپنا کوئی بیانیہ اور منشور نہیں دے سکیں اس لیے دعویٰ سب کا ہے کہ ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں لیکن ان سیاسی برہمنوں کا ’’ ہوم ورک‘‘ مکمل نہیں لگتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button