CM RizwanColumn

گفتنی فرشتے عملاً ذلیل؟

سی ایم رضوان
روز بروز پاکستان میں ایسے واقعات اور سانحات رونما ہو رہے ہیں کہ ہر ذی شعور پاکستانی قوم کی مجموعی اخلاقی گراوٹ سے خوفزدہ ہو چکا ہے۔ خواتین کی عصمت دری، اجتماعی زیادتی، بے گناہ لوگوں کی قتل و غارت، ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن، سرکاری وسائل پر ڈاکے، خطرناک اغوا برائے تاوان کے واقعات، شہریوں کی جبری گمشدگیوں کے ہوشربا واقعات وطن عزیز کا معمول بن چکا ہے۔ حالیہ چکوال مدرسہ کیس میں طالب علموں کی ایک نام نہاد استاد کے ہاتھوں جنسی پامالی کی شرمناک داستانیں اور لاہور میں ایک کم عمر بغیر لائسنس ڈرائیور کے ہاتھوں چھ لوگوں کی بہیمانہ ہلاکت کی افسوسناک تفصیلات پر مبنی خبروں کی بازگشت ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ سیاست میں فرشتوں جیسے معیار کے گفتنی مبلغ سابق وزیراعظم کے اپنے ذاتی اخلاقی معیار پر اس کی موجودہ منکوحہ کے سابقہ شوہر کی جانب سے وضاحتی الزامات پر مبنی تہلکہ خیز انٹرویو نشر ہو گیا۔ جس میں سابق خاتون اول کے سابقہ شوہر خاور مانیکا نے الزام لگایا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم نے پیری مریدی کی آڑ میں ان کا ہنستا بستا گھر برباد کر دیا تھا اور محض اپنی ازدواجی آزادی کے لئے اس سی طلاقِ دلوائی تھی۔ الزام لگانے والے خاور مانیکا کے اپنے بیانات بھی پانچ سال پہلے دیئے گئے بیانات کے مطابق نہیں پتہ نہیں وہ سچ تھا یا یہ سچ ہے لیکن ایک سچ سب کو ماننا پڑے گا کہ ہماری سیاست کے مکروہ حمام میں سب ننگے ہیں۔
ایسے حالات پر تبصروں اور آراء کی صورت میں کوئی دین سے دوری کا رونا رو رہا ہے تو کوئی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو برا بھلا کہہ رہا ہے مگر ان سب کے علاوہ ایک صورت اور بھی ماننا پڑے گی کہ دراصل ہم سب خود ہی خود سے جھوٹ بولنے کے عادی ہو چکے ہیں اور جھوٹ اور منافقت ہمارا دلچسپ اور پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ گھمبیر ترین مسائل کے اصل محرکات کو بھی برہنہ کرنے اور اپنی اصلاح خود کرنے کی بجائے ہم الزام اپنے اردگرد، پڑوس یا دشمن پر لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً پورا پاکستانی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو گیا ہے۔ ایک اور رائے بھی قابل غور ہے کہ ملک کے سیاسی و سماجی زوال کا واحد سبب آئین و قانون سے ہمارا مجموعی فرار ہے۔ کیونکہ جس ملک میں آئین اور قانون کی عزت ہو وہاں عورتوں، بچوں بزرگوں اور عام طبقات کی کمزوریوں پر بھی طاقتوروں کو غصہ نہیں آتا اور وہ تشدد، ظلم اور تعدی سے باز رہتے ہیں۔ اخلاقی مضبوطی کسی کو بھی جنسی تشدد پر آمادہ نہیں ہونے دیتی اور جو لوگ حقیقی طور پر اصول کے پیروکار ہوں وہ سیاست اور حکومت کے معاملات میں بھی سچ اور حق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ برسر اقتدار آ کر غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختص رقم کو لوٹ کر ذاتی جائیدادیں اور کاروبار بنانے والے کسی سیاستدان کو اگر ملک کے آئین و قانون کی حیثیت، اہمیت اور عملی نفاذ کا خوف ہو تو وہ ہر گز بددیانتی نہیں کرے گا لیکن اگر اسے طاقتور حلقوں کی اشیر باد حاصل ہو تو پھر غریب پاکستانیوں کے حقوق کا اللّٰہ ہی حافظ ہے۔ یہاں تو آئین کو کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر معطل کرنے والے فوجی جرنیل بھی ہو گزرے ہیں اور آیات پڑھ کر گیارہ سال تک عام شہری کے حقوق سلب رکھنے کی مثال بھی موجود ہے۔ ان حالات میں اخلاقیات اور اصول کی عملداری کیا خاک ہو گی۔ اشیائے خورونوش سے لے کر ادویات تک میں مہلک ترین ملاوٹ کرنے والے اگر یقین کر چکے ہوں کہ ملک کا قانون اندھا ہے۔ ہر شام کو ٹی وی پر نمودار ہونے والے دانشور جسے چاہیں محب وطن اور جسے چاہیں غدار وطن قرار دے دیں وہ بھی محض اس بنا پر کہ ان کے سپانسرز آئین و قانون سے زیادہ طاقتور ہیں تو قوم کا اخلاقی معیار کیا خاک ہو گا۔
قارئین سیاست سمیت تمام تر شعبہ ہائے حیات میں ہماری گراوٹ اور پستی کے اس ماحول میں ذرا ماضی قریب کے اسی ملک کے سیاسی و ادبی ماحول کو یاد کریں جب لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ادبی و سیاسی محافل اور مکالمہ کی نشستیں ہوا کرتی تھیں جن میں مین سٹریم کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوتے تھے۔ یہ قومی سطح کے رہنما ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے بھی ملاقاتیں اور مکالمہ کرتے تھے۔ سیاست، ادب اور انسانی زندگی کی تاریخ اور ترتیب و تربیت پر خوب عالمانہ اور منصفانہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اہل سیاست انتہائی وسیع المطالعہ اور کتابوں کے مصنفین ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنے سیاسی و سماجی افکار اور آراء کو اپنی تحریروں اور تقریروں سے یوں اجاگر کرتے تھے کہ نئی نسل کی رہنمائی بھی ہوتی اور ان سیاسی رہنماں کے ارادوں اور پروگراموں سے آشنائی بھی ہوتی۔ اہل قلم اور اہل دانش ان سیاسی زعماء کو آئیڈیل معاشرے کی تشکیل اور انسان دوست سیاسی ماحول کے قیام کے لئے تجاویز بھی دیتے اور وہ نہ صرف ان تصورات کے قائل ہوتے بلکہ اپنی جماعتوں اور حکومتی پالیسیوں کا حصہ بھی بناتے لیکن یہ تمام تر خوبصورت اور خوشبودار سماجی پھول جلد ہی کرپشن، غنڈہ گردی، اقتدار پرستی اور اقربا پروری کے قاہر ہاتھوں سے مسل دیئے گئے۔ اہل قلم کا اہل سیاست سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ادب اور سیاست میں گہری دوستی ختم ہو گئی۔ سیاستدان انڈر ورلڈ سے بھی ملنے لگے اور مارشل لا کے حامیوں سے بھی ملاقاتیں کرنے لگے۔ یہ ملاقاتیں اور ربط علمی، فکری اور جمہوری بنیادوں پر استوار ہونے کی بجائے دولت، اختیار اور طاقت کی راہداریوں سے ہوتے ہوئے لوٹ مار اور پس پردہ مفادات کی منزل پر پہنچ گئے۔ ایسے میں کوئی حقیقی دانشور، تخلیق کار اور اہل ہنر اپنا کام چھوڑ کر سیاسی آدمی بننے کی کوشش کیسے کر سکتا ہے۔ آخر کار اپنے فکر اور خیال میں جینے والے تخلیق کار اہل سیاست کی مصلحت اندیشیوں اور مالی تقاضوں سے بے نیاز ہو گئے کیونکہ اِنہیں عام طور پر کسی عہدہ، پرمٹ اور ایوارڈ کی خواہش ہرگز نہیں ہوتی۔ ان کا اثاثہ تو زندگی کا احساس اور انسان دوستی کا جذبہ ہوتا ہے جو مروجہ پیچیدہ سیاسی حالات اور مباحث کے برعکس خیر اندیشی کے عمومی بیانات کا قائل ہوتا ہے۔ مُلک کی موجودہ صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے ادب اور سیاست کی دوستی میں دراڑ پیدا ہو چکی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ اس خلیج نے درحقیقت دونوں شعبوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب سیاست دان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اہل قلم کی بات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے اپنے پورے سیاسی کردار کو بدلنا۔ لمحے کی بجائے ابدیت میں جینا اور مصلحت اندیشی کی بجائے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنانا۔ دوسری طرف یہ سب کچھ اب اہل سیاست کے لئے مشکل تر ہو چکا ہے وہ ایسی تبدیلی کے لئے اب ذہنی اور عملی طور پر تیار نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پورا آدمی بننے کا مطلب ہے مروجہ ادھوری سیاست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھنا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ مجموعی مالی ہوس کے تحت دوسری طرف ادب کی دنیا میں بھی چند ایسے ادیب اجارہ دار بن چکے ہیں جو پچھلی چند دہائیوں میں صرف سیاسی ضرورتوں کی بات کرتے رہے اور ادب برائے زندگی کے تقاضوں کی بات کو پس پشت ڈال دیا۔ اُنہوں نے ایک ادیب کی طرح سیاست کے متعلق نہیں سوچا بلکہ ایک سیاسی آدمی کی طرح ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا۔ اب نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست کی طرح ادب کو بھی بس زبان کی چاشنی، اندازِ بیاں کی رنگینی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ کراچی کے ایک معمر ادیب آج کل ایک ہی سیاسی جماعت کی ترجمانی میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ امر یکسر فراموش کر دیا گیا ہے کہ وقت کے لئے لکھنا اور چیز ہے جبکہ اپنے وقت کی سیاست کے لئے لکھنا یکسر مختلف ہے۔ اس ضرورت سے بھی صرف نظر کر لیا گیا ہے کہ ایک لکھنے والے میں سیاسی بصیرت کا ہونا لازمی ہے مگر اس کا سروکار کسی سیاسی مقصد کے تحت نہیں ہونا چاہیے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ اعلیٰ ادب انسانی قدروں کا حامل ہوتا ہے اور بنیادی انسانی مسائل سے ہی سروکار رکھتا ہے نیز ادب کی تمنا سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہوتی ہے۔ ادب انسانی قدروں اور دلچسپیوں کا حامل اس وقت بنتا ہے جب وہ اشتعال انگیزی، نفرت اور زہر افشانی سے پاک ہو۔
جس طرح ہر مُلک کی سیاسی صورتحال مختلف اور اس مُلک سے مخصوص ہوتی ہے، اسی طرح ہر مُلک کے ادب کا اپنی سیاسی صورتحال کی طرف رویہ بھی مختلف اور مخصوص حالات کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ اس لئے سیاست اور ادب کے تعلق پر محض عمومی بیانات گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ جب بھی کوئی مُلک شدید سیاسی بحران سے دوچار ہوتا ہے، جیسا کہ ہم کئی سالوں سے ہیں تو اس وقت سیاسی بصیرت رکھنے والے کسی تخلیق کار کے لئے قومی دھارے سے الگ رہنا جرم بن گیا ہے۔ سیاسی اور تہذیبی سطح پر جس معاشرے میں فکر و خیال کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہو وہاں اہل سیاست اور دانشوروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کو درپیش صورتحال سے متعلق سوچیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے درمیان ایسے سیاست دان اور ادیب موجود ہیں جو اس دوستی میں پائی جانے والی دراڑ کو ختم کر سکیں۔ یقیناً ایسے بلند پایہ رجال اب ناپید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مروجہ سیاست کی اخلاقیات تباہ ہو چکی ہیں اور تمام تر باطل اور باعث شرم رویوں کے باوجود ہمارے سیاستدان اپنے اپنے شرمناک کردار کے ساتھ سیاست میں خم ٹھونک کر کھڑے ہیں اور گفتنی طور پر فرشتے بھی بنے ہوئے ہیں مگر عملاً اس قدر ذلیل ہو چکے ہیں کہ لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے۔ اب گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے کی روایت بھی دم توڑ چکی ہے اور محض کارنر میٹنگز پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے کیونکہ معنوی تذلیل تو جاری ہے اب تو عملی تذلیل کا بھی خطرہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button