ColumnRoshan Lal

سموگ کی آفت اور ہماری غیر سنجیدگی

تحریر : روشن لعل
لفظ سموگ بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی مرتبہ بطور اصطلاح برطانیہ میں استعمال ہوا مگر اکیسویں صدی کے آغاز پر جس ملک میں اس کے مضر اثرات انتہائی تیزی سے ظاہر ہوئے اس کا نام چین ہے۔ سموگ چین کے شہر بیجنگ میں جتنی تیزی سے ظاہر ہوا اتنی ہی تیزی سے اس کے تدارک کے انتظامات بھی کیے گئے۔ یہ ایک عام اور بڑی حد تک درست خیال ہے کہ جب کسی شہر میں صنعتی ترقی کی وجہ سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں تو اس کی جی ڈی پی بڑھنے کے ساتھ نہ صرف آبادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہاں موٹر گاڑیوں کی تعداد اور آمد و رفت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جی ڈی پی، آبادی اور گاڑیوں میں اضافے کے برعکس جو شے کم ہو جاتی ہے وہ وہاں کی زیر کاشت زمین ، اس پر موجود درخت اور دیگر ماحول دوست اجزا ہوتے ہیں۔ ماحول دوست اجزا میں کمی اور ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل میں اضافے کے بعد اس شہر میں سموگ کا ظاہر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ چین کے شہر بیجنگ میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ بیجنگ میں ہونیوالی صنعتی ترقی کی وجہ سے بیس برس کے دوران جی ڈی پی میں 1078فیصد، آبادی میں74 فیصد اور شہر میں چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں335فیصد اضافہ ہوا ۔ ان ماحول دشمن اجزا میں اضافہ کے بعد بیجنگ کی فضا میں ہر طرف زہر آلود سموگ نظر آنے لگا۔ جو سموگ بیجنگ میں ہونے والی تیز رفتار صنعتی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوا اسے سائنسی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے بہترین انتظامات کے تحت خطرناک حد سے نیچے لایا گیا۔ اس کام کے لیے حکومتی ایما پر سائنسدانوں نے تو صرف پالیسیاں بنائیں مگر ان پالیسیوں پر عمل کے دوران حکومتی انتظامیہ، صنعتکاروں اور عام شہریوں نے اس حد تک تعاون کیا کہ جو سموگ بیجنگ میں بیس برس کے دوران پھیلا وہ صرف پانچ برسوں میں بتدریج خطرناک حد سے نیچے لایا گیا۔
سموگ کی وجہ سی چند سال پہلے تک بیجنگ دنیا کا آلودہ ترین شہر ہوا کرتا تھا مگر اب اس شرمناک مرتبے پر کبھی پاکستان کا شہر لاہور اور کبھی بھارت کا دارالحکومت دہلی فائز ہو جاتے ہیں۔ دہلی کیوں دنیا کا آلودہ ترین شہر بن جاتا ہے یہ بھارت کا مسئلہ ہے، دہلی کے سموگ کی آڑ میں ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جو سموگ پاکستان سے نسبتاً ترقی یافتہ بھارت کے دارالحکومت میں چھایا رہتا ہے، وہ اگر لاہور میں بھی ظاہر ہوگیا تو کون سی بڑی بات ہے۔ ہمارے لیے دہلی کی بجائے بیجنگ کی مثال زیادہ اہم ہونی چاہیے ۔ بیجنگ میں نہ صرف ہر سطح پر سموگ کو انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک سمجھا گیا بلکہ اس کے تدارک کے انتظامات بھی کر کے دکھائے گئے۔ افسوس کے ہمارے ہاں مختلف حکومتوں اور ریاستی
اہلکاروں کی طرف سے سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اس سے یوں لگتا ہے جیسے وہ بیجنگ کی بجائے دہلی کی پیروی کرنے کی طرف راغب ہیں۔ ریاستی اہلکاروں کی سموگ کے معاملے میں غیر سنجیدگی کی بڑی گواہی یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ نے چھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو اس وجہ سے تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا کیونکہ وہ سموگ کے تدارک کے لیے اپنے زیر انتظام علاقوں میں عدالت کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ بیجنگ کی فضا میں اگر2013 میں آلودگی کا لیول101.56 تھا تو بہترین اقدامات سے بتدریج کم کرتے ہوئے 2018میں 50.70اور سال 2022میں 31.74تک لایا گیا۔ بیجنگ میں جہاں فضائی آلودگی اور سموگ کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں وہاں شہر کے ارد گرد موجود زمین کے تمام چھوٹے بڑے قطعات پر تیزی سے شجر کاری کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ بیجنگ کی فضائی آلودگی کم کرنے میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میں لائی گئی تبدیلیوں کی نسبت شہر کے ارد گرد کی گئی شجر کاری نے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔
لاہور میں فضائی آلودگی اور سموگ ختم کرنے کے لیے ہمیں چین کی طرح اتنے وسائل دستیاب نہیں کہ کثیر سرمایہ خرچ کرکے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں تبدیلیاں لائی جا سکیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں تبدیلیاں ممکن نہ سہی لیکن کیا ہم شجر کاری کے ذریعے لاہور کی فضا کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے کسی منصوبے کا آغاز کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ فی الوقت اس سوال کا مثبت جواب نہیں دیا جاسکتا کیونکہ لاہور کے ارد گرد ایسی کوئی خالی جگہ نظر نہیں آتی جس پر شجر کاری کرکے آلودگی کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے۔ جس لاہور کے ارد گرد ایک لاکھ ایکڑ رقبے پر ماحول دشمن راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کا آغاز ہو چکا ہو وہاں شجر کاری کے کسی منصوبے کے لیے جگہ کیسے دستیاب ہو سکتی ہے۔ کئی لوگ یہ وضاحت پیش کر سکتے ہیں کہ کاغذوں میں جس منصوبے کا 70 فیصد رقبہ شجر کاری کے لیے مختص کیا گیا ہ واس کے متعلق کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ یہ منصوبہ ماحول دشمن ہو سکتا ہے۔ جو لوگ راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے لیے اس طرح کی وضاحتیں پیش کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ بنیادی طور پر یہ شجر کاری نہیں بلکہ ہائوسنگ کا منصوبہ ہے۔ لاہور کی آلودگی اور سموگ آج کا مسئلہ ہے اور فوری طور پر کی جانے والی شجر کاری ہی اس مسئلے کے حل ہو سکتی ہے جبکہ راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ میں تو سب سے پہلے زرعی زمینوں پر موجود سبزہ اور درختوں کو کاٹنے سے کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ جہاں تک نئی مبینہ شجر کاری کا تعلق ہے تو ہر ہائوسنگ سکیم کی طرح راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ میں بھی طویل عرصہ بعد اس کا آغاز فنڈز کی دستیابی کی صورت میں کیا جائے گا۔ اس طرح کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ راوی ریور فرنٹ اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ فوری طور پر لاہور کی آلودگی اور سموگ میں اضافے کا باعث بنے گا یا اسے کم کرے گا۔
یہ بات عرصہ دراز سے کہی جارہی ہے کہ پہلے سے موجود درختوں کے تحفظ اور مسلسل جاری رہنے والی حقیقی شجرکاری مہموں کے ذریعے ہی سموگ اور فضائی آلودگی کا تدارک ممکن ہوسکتا ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت کے دوران یہ سننے میں آیا تھا کہ لاہور کی فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے یہاں کئی ایسے میاواکی جنگل لگائے جائیں گے جس کے لیے 100مربع میٹر جگہ بھی کافی ہوتی ہے۔ لاہور میںمیاواکی جنگل لگانے کے منصوبے کی منظوری کے بعد اس پر کام کا آغاز ہونا یا نہ ہونا ابھی تک معمہ ہے ۔ جب حمزہ شہباز مختصر وقت کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے بزدار حکومت کے جو منصوبے ختم کیے ان میں میاواکی جنگل لگانے کا منظور شدہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ حمزہ شہباز کے بعد جب کچھ مہینوں کے لیے پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے بزدار کے اعلان کردہ میاواکی جنگل منصوبے پر کام کا آغاز کرنے کی بجائے حمزہ کی پیروی کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ ان باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اور بیورو کریسی پر مشتمل انتظامی مشینری کے لوگ سموگ اور فضائی آلودگی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button