ColumnFayyaz Malik

پانچ کمروں پر مشتمل سندھ پولیس کا تاریخی میوزیم

تحریر : فیاض ملک
کراچی گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹرز کے سامنے شہر کی گنجان آبادی میں موجود سندھ پولیس کے قیام کی تاریخ بتانے والا میوزیم میرے لیے حیران کن تھا، اس ہیڈ کوارٹر میں پولیس کی بیرکیں، دفاتر، اسلحہ کے گودام سے لیکر ریڈیو اسٹیشن تک سب کچھ موجود ہے، اس تاریخی عمارت میں’ سندھ پولیس میوزیم‘ بھی موجود ہے جو عوام الناس کیلئے صبح سے شام تک کھلا ہوتا ہے۔ شاید اس میوزیم کے بارے میں پولیس ہیڈکوارٹرز کے سامنے سے گزرنے والوں کو بھی علم نہ ہو۔ میرے لیے اس میوزیم کی سیر ایک عام شخص کی طرح ہوسکتی تھی لیکن اس میں موجود نادر تصاویر کی اہمیت اور محکمہ پولیس کے قیام کی تاریخ کے بارے میں جاننا بحیثیت صحافی میرے لیے انتہائی حیران کن بھی تھا اور دلچسپ بھی، بنگال، مدراس اور ممبئی کے بعد سندھ پولیس برطانوی راج کی چوتھی پولیس سروس تھی جس کی تشکیل1843میں کی گئی بعد میں اسی طرز پر ممبئی پولیس میں بہتر تبدیلیاں کی گئیں، برصغیر کی پہلی ماڈرن پولیس فورس کا اعزاز رکھنے والی سندھ پولیس جسے دیکھ کر دوسرے صوبوں اور اضلاع میں پولیس کا نظام رائج کیا گیا، یہ سب اور اس کی تاریخ 2008میں عمل میں لائے جانیوالے اس میوزیم کا حصہ ہے، جس کا تصور سابق آئی جی سعود احمد نے 2004میں پیش کیا تھا جن کے مطابق اس میوزیم کا مقصد سندھ پولیس کی تاریخ کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور پولیس کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنا تھا۔ اس کو بنانے میں سب سے بڑا چیلنج جگہ کے تعین سے لیکر اس میں موجود تاریخی نادر اشیائ، دستاویزات، تصاویر کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف تاریخی اشیاء اور ریکارڈ کوکئی شخصیات سے حاصل کر کے یہاں لانا تھا۔ جس میں ابتدا میں تو خاصے مسائل درپیش رہے لیکن پھر پولیس کے سابق افسران اور ایسی شخصیات جن کے پاس یہ سب
موجود تھا انہوں نے بھی دلچسپی لیتے ہوئے اس میوزیم کو یہ اثاثے عطیہ کیے۔ پانچ بڑے کمروں پر مشتمل پولیس کا میوزیم جس عمارت میں بنایا گیا ہے وہ 1876کی تعمیر کردہ ہے جو ماضی میں کافی مخدوش حالت میں تھی، اس عمارت کی بحالی میں سندھ حکومت اور تاریخی ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں نے مدد کی ،اب اس عمارت کا ایک کمرہ پرانی تاریخی تصاویر کی گیلری پر مبنی ہے جبکہ دوسرے کمرے میں قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک ہونیوالے مختلف واقعات، سانحات کی تفتیشی رپورٹس کی کاپیاں رکھی گئیں ہیں جو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ایک خزانہ ثابت ہوسکتی ہے۔تصاویر کی گیلری میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی1969 میں پاکستانی دورے کی وہ تصویر آویزاں ہے جس پر سندھ پولیس انکی آمد پر خیر مقدم کر رہی ہے، یہاں 1962 کی وہ تصویر بھی موجود ہے جس میں سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی اپنی ہمشیرہ لی ریڈزیول کے ہمراہ اونٹ کی سواری کر رہی ہیں اور سندھ پولیس کا دستہ انکے ساتھ موجود ہے۔میوزیم کے ایک حصے میں پرانی تصاویر کا خزانہ ہے جن میں سب سے قدیم تصویر 1857کی ہے جس میں سندھ پولیس کی اولین وردیاں دیکھی جاسکتی ہیں، اسی طرح ایک تصویر1906 میں لی گئی سندھ پولیس کے پہلے ڈی آئی جی سر ایڈمونڈ کاکس کی ہے۔ ایک تصویر 1914 کی ہے جس میں سندھ، بمبئی، برطانوی پولیس کمانڈر ایک ساتھ بیٹھے ہیں یہ تصویر انڈیا کے شہر ناسک کی ہے جہاں پولیس کی تربیت کی جاتی تھی اور کمیشنڈ آفیسرز یہاں سے برصغیر کے مختلف علاقوں میں تعینات کیے جاتے تھے۔ اس گیلری میں 1948کی ایک اور یادگار تصویر ہے جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناحؒ کو سندھ پولیس گارڈ آف آنر پیش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں آئی جی ویسٹ پاکستان شریف خان کی بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ وہ تصویر بھی آویزاں ہے جب 1960میں بھارتی وزیر اعظم نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیلئے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔1961میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی سابق صدر ایوب خان کے ساتھ وہ تصویر بھی یہاں موجود ہے جس میں وہ کراچی کے دورے پر ہیں اور ان کے قافلے کی قیادت سپرنٹنڈنٹ پولیس وحید امتیاز کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قیامِ پاکستان سے قبل اور تقسیم کے بعد کی ایسی بہت سی تصویریں اس گیلری میں آویزاں ہیں جو ماضی میں پولیس کے کردار اور تاریخ کو اجاگر کرتی ہیں۔یہاں موجود مارسٹن گیلری جس کو ایڈورڈ چارلس مارسٹن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے،سندھ پولیس کو بر صغیر کی پہلی ماڈرن پولیس فورس بنانے میں سب سے پہلا نام ایڈورڈ چارلس مارسٹن کا آتا ہے۔ 1822کو پیدا ہونیوالے مارسٹن 1839میں بمبئے آرمی کا حصہ بنے اور یکم مئی 1843میں انہیں کراچی پولیس چیف بنایا گیا۔ مارسٹن نے سندھ پولیس کی تشکیل ایک الگ انداز سے کی انہوں نے سندھ پولیس کو تین برانچوں میں تقسیم کیا جس میں ماونٹڈ پولیس، رورل پولیس اور سٹی پولیس شامل تھی۔ اس تشکیل کے بعد سندھ پولیس کے اس وقت کے آئی جی جسے اس زمانے میں ’ کیپٹن آف پولیس‘ کہا جاتا تھا اس عہدے پر فائز رہے۔ سن 1846 سے 1864 تک کی سروس میں مارسٹن نے پولیس کو اس نہج پر پہنچادیا کہ سندھ پولیس کے نظام کو دیکھ کر برطانوی پولیس نے دیگر علاقوں میں بھی اس نظام کو اپنایا۔1857 کی جنگ آزادی کے وقت جب برصغیر میں بغاوت اور خون ریزی عروج پر تھی مارسٹن کی بدولت سندھ پولیس ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت سندھ بھر میں حالات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی۔ کراچی شہر مارسٹن کو بے حد پسند تھا اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی شہر میں رہے اور 1902 میں وفات پاگئے۔یہاں کیپٹن آف سندھ پولیس مارسٹن کا لکھا ہوا خط،1938 کی سندھ پولیس کی سیکرٹ انٹیلی جنس رپورٹس بھی رکھی گئی ہیں۔ 1915کی بمبئے ریذیڈنسی رپورٹ، 1882 کی قدیم جوڈیشل کیس فائل، 1947 کی ایف آئی آر بھی محفوظ ہیں۔یہاں رکھی گئی سب سے پرانی ایف آئی آر 13 جون 1942 کی ہے جو چالیس روپے کی چوری پر کاٹی گئی تھی۔ اس میں اس دور کے ہتھیار رکھے گئے ہیں جو 1857 اور اسکے بعد پولیس کے زیر استعمال رہے۔ اس طرح کے مختلف پرانے ہتھیار، رائفلز، جن کی تعداد ایک سو سے زائد ہیں اس میوزیم کا حصہ ہیں۔اس گیلری میں پرانے پولیس کے نظام، قوانین، ایکٹ بھی موجود ہیں۔اس گیلری میں پولیس کے زیر استعمال رہنے والے پرانے کمیونی کیشن آلات موجود ہیں۔ وہیں پولیس کی قدیم سے لیکر دورِ حاضر تک کی وردیاں بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔میوزیم میں وقت کے ساتھ بدلتے پولیس کے رینکس بھی رکھے گئے ہیں وہیں سابق افسران کو ملنے والے اعزازات، تمغے بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس میوزیم میں تقسیم سے قبل اور پاکستان کے قیام کے بعد سے پولیس کے اعلیٰ افسران کی تصاویر ان کی مدت ملازمت کے ساتھ آویزاں ہیں۔ سندھ پولیس کی تاریخ کو اپنے اندر محفوظ رکھنے والا یہ میوزیم یقینا ہماری نوجوان نسل کیلئے کسی خزانے سے کم نہیں ہے ،کیونکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں عوام کا پولیس کے حوالے سے یہ تاثر بن چکا ہے کہ یہ فورس صرف ڈرانے دھمکانے یا طاقت کا استعمال کرنے کیلئے ہے یہاں تک کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو ڈرانے کیلئے پولیس کی دھمکی دیتے ہیں کہ تم یہ کرو گے تو پولیس آجائے گی۔ عوام میں موجود پولیس کے اس منفی تاثر کو زائل کرنے کیلئے یہ میوزیم بھی ایک بہترین کاوش ہے، جس کو دیکھتے ہوئے دیگر صوبوں کے پولیس سربراہان کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے میوزیم بنائے تاکہ عوام کو محکمہ پولیس کی تاریخ سے آگاہی ہوسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button