ColumnM Riaz Advocate

فیض آباد دھرنا: سپریم کورٹ فیصلے کے 17نکات جن پر عملدرآمد نہ ہوسکا

تحریر: محمد ریاض ایڈ ووکیٹ
مشہور زمانہ فیض آباد انٹرچینج پرتشدد احتجاج اور دھرنا کے برخلاف سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے سوموٹو مقدمہ کی نومبر 2017تا نومبر2018 عدالتی کاروائی کے بعد فروری 2019جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کردہ 43صفحات اور 56پوائنٹس پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔ فیصلہ کے پوائنٹ نمبر 53میں 17نکات پر مشتمل اعلامیہ اور ہدایات جاری کی گئی۔ یہ وہی ہدایات ہیں جن پر گزشتہ چار سالوں تک عملدرآمد نہ ہو پایا۔ آج کی تحریر میں ان سترہ نکات کا مطالعہ کیا جائے گا۔ (1)قانون کی طرف سے لگائی گئی معقول پابندیوں کے تابع، شہریوں کو سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور رکن بننے کا حق حاصل ہے۔ (2)ہر شہری اور سیاسی جماعت کو اکٹھے ہونے اور احتجاج کرنے کا حق ہے بشرطیکہ ایسا اجتماع اور احتجاج پرامن ہو اور امن عامہ کے مفاد میں معقول پابندیاں عائد کرنے والے قانون کی تعمیل کرتا ہو۔ دوسروں کے بنیادی حقوق بشمول ان کے آزادانہ نقل و حرکت اور جائیداد رکھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے حق کی خلاف ورزی کی صورت میں اکٹھے ہونے اور احتجاج کرنے کا حق محدود تصور ہوتا ہے۔ (3)مظاہرین جو شہریوں کے سڑکوں کے استعمال کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہیں، انکے کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور اسے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔(4)آئین الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کو متعین کرتا ہے جسے اسے پورا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت سیاسی جماعتوں کو چلانے والے قانون پر عمل نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنی ہوگی۔ یہ قانون یقینی طور پر کاسمیٹک نہیں ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے۔(5)تمام سیاسی جماعتوں کو قانون کے مطابق اپنے فنڈز کے ذرائع کا حساب دینا ہوگا۔(6)ریاست کو ہمیشہ غیر جانبداری اور انصاف سے کام لینا چاہیے۔ قانون سب پر لاگو ہوتا ہے، بشمول وہ لوگ جو حکومت میں ہیں اور اداروں کو حکومت میں رہنے والوں سے آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔(7) جب ریاست 12مئی 2007کو کراچی کی سڑکوں پر پرامن شہریوں کے قتل اور اقدام قتل کے ذمہ دار حکومت کے اعلیٰ افسران کے خلاف مقدمہ چلانے میں ناکام رہی تو اس سے ایک بُری مثال قائم ہوئی ، جس سے دیگر افراد کو تشدد کا سہارا لینے کی ترغیب حاصل ہوئی۔ (8)ایسا شخص جو کسی فرد کو نقصان پہنچاتا ہے یا دوسرے افراد کو نقصان پہنچانے کی غرض سے حکم یا کوئی فتویٰ جاری کرتا ہے تو ایسے شخص کے خلاف مجموعہ تعزیرات پاکستان ، انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ، 2016کے تحت مجرمانہ کارروائی کی جانی چاہیے۔ (9)براڈ کاسٹرز جو کسی جرم کے ارتکاب کی وکالت یا اکسانے والے پیغامات نشر کرتے ہیں وہ پیمرا آرڈیننس اور انکے لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔پیمرا کو انکے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرنی چاہیے۔(10)لائسنس یافتہ براڈکاسٹرز کی نشریات کو روکنے یا اس میں خلل ڈالنے والے کیبل آپریٹرز کے خلاف پیمرا آرڈیننس کے مطابق پیمرا کی طرف سے کارروائی کی جانی چاہیے۔اور اگر یہ دوسروں کے کہنے پر کیا گیا ہے تو پیمرا کو چاہیے کہ وہ کیبل آپریٹرز کو ہدایت دینے والوں کی رپورٹ متعلقہ حکام کو دے۔ (11)وہ لوگ جو الیکٹرانک ذرائع سے پیغامات پھیلاتے ہیں جو کسی جرم کی وکالت کرتے ہیں یا اسے بھڑکاتے ہیں ان کے خلاف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کی جائے ۔ 12)۔ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں ( بشمول آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور آئی ایس پی آر کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔یہ ایجنسیاں آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگا سکتی اورنہ ہی انہیں نشریات اور اشاعتوں، براڈکاسٹر/پبلشرز کے انتظام اور اخبارات کی تقسیم میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (13)انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان تمام لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے جو ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور ان تمام لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں جو تشدد کا سہارا لے کر یا بھڑکا کر عوام اور ریاست کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (14)شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو بہترین طریقے سے یقینی بنانے کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے متعلقہ مینڈیٹ کو واضح طور پر متعین کرتے ہوں۔(15)آئین مسلح افواج کے ارکان کو ہر قسم کی سیاسی سرگرمی میں شامل ہونے سے منع کرتا ہے، جس میں کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت کرنا شامل ہے۔ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع کے ذریعے اور متعلقہ چیفس آف آرمی، نیوی اور ایئر فورس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے زیر کمان ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔(16)پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے معیاری پلان اور طریقہ کار تیار کریں کہ ریلیوں، مظاہروں اور دھرنوں کو کس طرح بہترین طریقے سے سنبھالا جائے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کے منصوبے/ طریقہ کار مختلف حالات میں شرکت کے لیے کافی لچکدار ہوں۔یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اگرچہ اس طرح کے منصوبے/طریقہ کار بنانا اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے تاہم ہم امید کرتے ہیں کہ امن و امان کی بحالی میں ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاکہ کسی جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ (17)ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کریں اور مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ چلائیں۔
یاد رہے فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کی گزشتہ سماعت کے تحریری حکمنامے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اس کیس میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے اور ذمہ داران کا احتساب نہ ہونے کے نتیجے میں قوم کو نو مئی کے واقعات دیکھنا پڑے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button