Column

آلودہ ترین شہر کی دہائی

تحریر : عبد المادجد مالک
تباہی ہے، نری تباہی ہے ہم بربادی کی طرف گامزن ہیں کیونکہ ہم درخت اگانے کے بجائے ان کا بے دریغ قتل عام کیے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ کنکریٹ و سیمنٹ کی بلند و بالا عمارتیں اور ہائوسنگ سوسائیٹیز بنائے جا رہے ہیں، جس سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں اس لیے وقت ہے کہ کچھ تدابیر کر لی جائیں کیونکہ یہ عام عوام کی ذمہ داری بھی ہے اور رہی بات خواص کی تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ جب مرض بڑھ جاتا ہے اور لادوا ہوتا ہے تو پھر شہر بند کر دیا جاتا ہے جس سے امیر کو چھٹی ملتی ہے جبکہ غریب کا چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
کبھی ہم لاہور کو پھولوں کا شہر کہتے تھے، زندہ دلان کا کہتے تھے اور اب نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس وقت ہم آلودہ ترین شہر گردانتے ہیں، تاریخی شہر تباہ ہوا، پہلے ہائوسنگ سوسائٹیز نے سبزے کو کھا لیا اور ایک ریل گاڑی نے بھی تباہی میں حصہ ڈالا، لیکن اس ٹرین کو اس حوالے سے تھوڑی معافی دی جا سکتی ہے کہ اس سے لاکھوں لوگ مستفید بھی ہو رہے ہیں۔
اس آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہم صرف قدرت کے نظام یا بارش کی طرف ہی نہ دیکھیں بلکہ خود بھی متحرک ہوں تو کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن المیہ یہی ہے کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے معجزے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر جب برباد ی گزر جاتی ہے تو پھر ایک دوسرے کو دوش دیتے ہیں جو کہ المیہ ہے کہ ابھی تک ہم نے شعور کی منازل طے ہی نہیں کیں۔
ہم تدارک نہیں کرتے بلکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر دیتے ہیں اور شتر مرغ کی طرح سر چھپا لیتے ہیں تبھی تو ہم آسان شکار بن جاتے ہیں بلکہ تماشا بن کر رہ جاتے ہیں ۔
بیج بوتے نہیں، پودے لگاتے نہیں، درخت اگاتے نہیں اور آلودگی کو کنٹرول کرنے کا واضح حل ہم نے یہی سوچ رکھا ہے کہ ہر چیز بند کر دو، دفاتر کو تالا لگا دیں، تعلیمی ادارے بند کر دیں، اس سے قبل ہمارے وزیرداخلہ ہوا کرتے تھے، اللہ عبدالرحمان ملک کو غریق رحمت کرے انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھی کچھ ایسا ہی فارمولہ متعارف کرایا تھا کہ سگنل غائب کر دئیے جائیں اور موبائل بند کر دئیے جائیں ۔
سرسبز لاہور بلکہ گرین پاکستان کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا، نئی ہائوسنگ کالونیاں اگر لازم ہیں تو وہ اس جگہ بنائی جائیں جہاں درختوں کو نقصان پہنچے اور نہ ہی زرعی زمینیں اس سے متاثر ہوں بلکہ موجودہ وقت میں انتہائی ضروری یہی ہے کہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز کی بجائے درخت اگائے جائیں، باغات لگائے جائیں ۔
مجھ سمیت ہر بندہ باتیں کرتا ہے، کئی لوگ تو لمبا سا لیکچر جھاڑ دیتے ہیں مگر عمل سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں ، یعنی کہ قول و فعل میں واضح تضاد ہوتا ہے، عمل کے فقدان کی وجہ سے ہماری باتیں پر اثر نہیں، تبھی جب ہم کہتے ہیں کہ آلودگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں تو پوچھئے کس نے اپنا رول عمدگی سے پلے کیا ہے ہزاروں میں سے چند ایک یعنی کہ آٹے میں نمک کے مصداق ہی کوئی ہو گا ،جس نے گھر کی چھت پہ بھی سبزیاں اگا رکھی ہونگی ،گھر کے لان میں بھی خوبصورت پھول کھلے ہوئے ہونگے لیکن اکثریت کے ہاں فقط باتیں ہی ہیں اور وہی بوریت سے بھرپور کے درخت اگائیے ،پودے لگائیے۔
آج سے ہی تہیہ کر لیجئے اور کمر کس کر میدان میں اتر جائیے کہ آلودگی کو کم کرنے میں انفرادی طور پہ اس طرح کردار ادا کروں گا کہ کم از کم پانچ پودے لگائوں گا اور صرف پودے لگانے ہی نہیں بلکہ ان کی مکمل دیکھ بھال بھی کرنی ہے ۔
اور رہی بات حکومت کی تو اس سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ کنکریٹ کے جنگل پہ پابندی عائد کر کے درختوں کے جنگل آباد کیے جائیں، پرانی اور نئی ہائوسنگ سوسائیٹیز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ سرسبز پاکستان کے لیے جگہ لازمی مختص کی جائے، اور اگر ممکن ہو تو کوئی ایسی مہم چلائی جائے جس سے شہریوں میں یہ آگہی ملے کہ صحت مند زندگی کے لیے درخت کتنے ضروری ہیں ۔
موجودہ وقت میں جو آرگنائزیشن سر سبز پاکستان کے حوالے سے کردار ادا کر رہی ہیں، انہیں حکومت سہولیات دیں تاکہ وہ مزید بہتر انداز میں اپنا کام جاری رکھیں ،گرین مشن کے لیے الخدمت والے بھی میدان میں اترے ہوئے ہیں ،بھلے لوگ ہیں اور منظم انداز میں کام کرتے ہیں ،حکومت کو ان سے مستفید بھی ہونا چاہیے اور اس ضمن میں ان کی مدد بھی کرنی چاہئے ،بہر کیف ہنگامی بنیادوں پہ حکومت کو اس اہم مسئلے پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بیماریاں دور ہوں اور ہمارا معاشرہ صحت مند ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button