Column

پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں چلانے کا فیصلہ

تحریر: ضیاء الحق سرحدی

باکمال لوگ، لاجواب سروس ۔۔۔۔۔۔ یہ کسی دور میں ایشیا کی کامیاب ترین ایئر لائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے کا موٹو تھا اور اس میں بہت حد تک سچائی بھی تھی۔ آئیے ہمارے ساتھ پرواز کیجیے(Come Fly with us)کا نعرہ بھی کار کردگی، سہولتوں اور سروس کے لحاظ سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔ اور لوگ ملک سے باہر اس ایئر لائن سے سفر کرتے ہوئے یا اندرون ملک سفر پہ ہی اپنے پیاروں کو بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہم پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے آئے ہیں۔پھر کیا ہوا ؟ کیوں ہوا؟ اہل وطن اور خاص کر اہل فکر ونظر کے لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ ملک کا ایک اہم ادارہ ایک عرصے سے زوال کا شکار ہے۔کرپشن اور اقرباپروری کے باعث قومی ادارے اربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہیں۔جن کی بحالی ناگزیر ہے۔کرپشن کا ناسور ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ مار کے باعث پاکستان کے بڑے ادارے،سٹیل ملز،ریلوے اور پی آئی اے سمیت متعدد پبلک سیکٹر ادارے تباہی کے دہانے پہنچ چکے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 300ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں کیا جاتا تھا،اس ادارے کا ماضی تو بہت شاندار رہا، لیکن حال بہت برا ہے۔ آزادی سے قبل 1946ء میں ابتدائی طور پر’’ اورینٹ ایئرویز‘‘کے نام سے قائم ہونے والی یہ فضائی کمپنی ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے۔1955ء میں پاک ایئرویز ،اورینٹ ایئرویز اور کریسنٹ ایئرویز کو یکجا کرکے پی آئی اے کا نام دیا گیا۔یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے نے کم وسائل کے باوجود نمایاں کامیابیاں اپنے نام کیں۔ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان نے پی آئی اے کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا، ایئر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف تھے۔1965ء سے 1968ء تین سالہ دور پی آئی اے کی’’ گولڈن ایج‘‘ کہلاتا تھا۔اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ایئرلائن بن گئی تھی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ماضی میں ہوا بازی کے شعبے میں دنیا کی مختلف ایئرلائن کمپنیوں نے پی آئی اے کے ماہرین سے تربیت حاصل کی۔پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئرلائن ہے جس نے دوران پرواز مسافروں کو فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں پی آئی اے نے بوئنگ 707کے ذریعے ایئر فورس کے لئے ٹرانسپورٹ کے بھی فرائض انجام دیئے۔پی آئی اے وہ قومی ادارہ ہے جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عالمی سطح پر ایک کامیاب اور منافع بخش ایئر لائن تھی تاہم ستر کی دہائی کے وسط میں اس میں خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور اس کا منافع کم ہونا شروع ہوا۔80کی دہائی میں بھی اس کی حالت مناسب رہی مگر اس میں خرابیاں بڑھتی گئیں۔پی آئی اے کی بحالی بالکل ممکن ہے،اس سلسلے میں ملایشیاء اور امریکا کی قومی ایئر لائن سمیت دنیا کی متعدد ایئر لائنز کی مثالیں بھی موجود ہیں جو شدید خساروں کا شکار چلی آرہی تھیںلیکن مثبت اور قابل عمل اقدامات کے بعد منافع بخش بن کر آج کامیابیوں کا تسلسل قائم کئے ہوئے ہیں۔البتہ مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں اور موثر حکمت عملی سے پی آئی اے کو پھر سے ایک کامیاب ایئر لائن بنایا جا سکتا ہے۔اتحاد ایئرویز،قطرایئرویز ،ایمریٹس ایئرویز اور راایئر بلیو جیسی فضائی کمپنیاں آج منافع میں جا رہی ہیں۔اگر یہ فضا ئی کمپنیاں بہتر طور پر چل سکتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے دنیا کی بہترین افرادی قوت ہونے کے باوجود مسلسل خسارے کا شکار ہے۔پی آئی اے کو اپنے پاں پر کھڑا کرنے کے لئے اس میں کرپشن کے دروازے بند کرنے ہونگے۔سیاسی مداخلت ،فرائض کی انجام دہی میں ملازمین کی عدم دلچسپی اور مختلف شعبوں میں رابطوں کے فقدان جیسے مسائل سے جلد چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 50سے لیکر 70کی دہائی تک پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن تھی ، دنیا بھر کے امرا اور حکمران اس میں سفر کو ترجیح دیتے تھے ، یہی نہیں بلکہ اس ائیر لائن نے مشرق وسطی اور دیگر کئی ممالک کی ایئر لائنز کو اپنے طیارے دے کر کھڑا کیا ، پھر حرماں نصیبی سے قومی ایئر لائن سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ان حالات میں جب بھی حکومت اس ادار ے کی نجکاری کا فیصلہ کرتی ہے تو پی آئی اے انتظامیہ اور ملازمین، سول ایوی ایشن کی وزارت اور حزب اختلاف مل کر اسکی مخالفت کرتی ہیں۔ ضروری ہے کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جو حکومت اور ائیر لائن کے عملے کیلئے بھی قابل قبول ہو، وگر نہ حکومت کو خود ہی فیصلہ کرنا پڑیگا جو شاید کچھ لوگوں کے نزدیک تلخ ہو جبکہ پی آئی اے کی تنظیم نو پیچیدہ عمل ہے مکمل کرنے میں ایک سال درکار ہے۔ تنظیم نو کے دوران پی آئی اے کا آپریشنل رہنا اشد ضروری ہے جبکہ پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بیرونی سرمایہ کاری سے چلانی کا بڑا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ قرضوں کے دلدل میں پھنسی قومی ایئر لائن کی بحالی کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن ( پی آئی اے سی ایل) کی تقسیم کا با قاعدہ عمل بورڈ برائے نجکاری کمیشن کی جانب سے لین دین کیلئے مالیاتی مشیر مقرر کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ارنسٹ اینڈینگ کی زیر قیادت کنسورشیم دلچسپی رکھنے والے 8اداروں میں فاتح بن کر ابھرا جنہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن کی نجکاری کیلئے مالیاتی مشیروں کی خدمات حاصل کرنے کیلئے اپنی تکنیکی اور مالی تجاویز پیش کی تھیں۔اسی طرح ایئر لائن میں بدعنوانی یا خورد برد کو بھی روکا جائے مینجمنٹ کو ضرورت کے مطابق مختصر کیا جائے تو قومی ائیر لائن ملک کے لیے باعث فخر بن سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button