Editorial

اسرائیلی حملے جاری، سوشل سائٹس بھی ظالم کی ہمنوا نکلیں

فلسطین کی صورت حال پر ہر دردمند دل اُداس ہے، اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ایسے میں دُنیا میں بعض پتھر دل ممالک اور ادارے بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، جنہیں اسرائیل کے بدترین حملوں اور ساڑھے 12 ہزار سے زائد مسلمانوں کو زندگی سے محروم کردینے کا اقدام کسی طور بُرا معلوم نہیں ہوتا، بلکہ وہ ناجائز ریاست اسرائیل کی درندگی، سفّاکیت، جارحیت کو جسٹیفائی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھ رہے۔ اُس کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ مفادات کے پُجاری اسرائیل کو ان حملوں پر درست ٹھہراتے نہیں تھک رہے۔ سوشل پلیٹ فارمز بھی اسرائیل کی بھرپور معاونت کررہے ہیں۔ مختلف سوشل ویب سائٹس پر اسرائیلی مظالم اور فلسطین کے مظلوم عوام کے دُکھوں، غموں، مشکلات کا احاطہ کرنے والی پوسٹوں کو ڈیلیٹ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، یا جن اکائونٹس یا صفحات پر انہیں شیئرز کیا جارہا ہے، اُن کے خلاف سوشل سائٹس اقدام کرتی نظر آرہی ہیں۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اسرائیل کے کہنے پر غزہ جنگ سے متعلق پوسٹیں ہٹانے لگیں۔ مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے جب کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ کئی مرتبہ جھوٹا ثابت ہوچکا کہ وہ حماس کے ٹھکانوں پر حملے کررہا ہے۔ دوسری جانب اب جھوٹے پروپیگنڈے کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی پوسٹیں ہٹانے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ رپورٹس کی مطابق اسرائیل کی درخواست پر فیس بک کی سرپرست کمپنی میٹا اور ٹک ٹاک نے غزہ جنگ سے متعلق ہزاروں پوسٹ ڈیلیٹ کردیں۔ رپورٹس میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام کو اسرائیل سے 8ہزار سے زائد درخواستیں ملیں۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی درخواستوں میں شامل 94فیصد غزہ جنگ پوسٹوں کو ایپس سے ہٹادیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا سے اسرائیلی مظالم کا احاطہ کرتی پوسٹیں ڈیلیٹ کرنا یقیناً انتہائی بُرا عمل ہے۔ سوشل ویب سائٹس کے ذمے داران کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے والے اور مظلوموں کی آواز دبانے والے تاریخ میں ہمیشہ بُرے ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ بااثر طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کو ہر طرح سے سپورٹ کیا جارہا ہے۔ دُنیا بھر کے ممالک اور عالمی ادارے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہا۔ روز بروز اُس کے جنگی جرائم شدّت اختیار کررہے ہیں۔ کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ غزہ کو برباد کردیا گیا ہے۔ وہاں ہر سُو لاشے ہی لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں والدین اپنے بچوں کی لاشوں پر بین کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اولادیں ماں، باپ کے جسد خاکی سے لپٹے روتے بلکتے دِکھائی دیتے ہیں۔ تمام عمارتیں بم باریوں کے نتیجے میں زمین بوس ہوچکی ہیں۔ ملبے ہی ملبے ہیں۔ نہ جانے اُن ملبوں تلے کتنے مسلمان اپنے آخری وقت کے منتظر ہوں۔ صرف 47روز میں ساڑھے 12ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ ان میں پانچ ہزار کے قریب معصوم اطفال بھی شامل ہیں۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 200 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے جبالیہ کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا۔ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری سے 200فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق اسکول میں ہزاروں فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جبالیہ کیمپ میں رہائشی عمارت پر بھی حملہ کیا، اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے 32افراد شہید ہوئے، شہید ہونے والوں میں 19بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں الشفا اسپتال کا گھیرائو اور تلاشی جاری ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہیکہ بجلی بند ہونے سے 24 گھنٹے کے دوران اسپتال میں 24مریض انتقال کرگئے، الشفا اسپتال میں 11نومبر سے اب تک بجلی بند ہونے کے باعث قبل ازوقت پیدائش والے 4بچوں سمیت 40مریض انتقال کر چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری اور حملوں کے دوران شہدا کی مجموعی تعداد 12ہزار سے زائد ہو چکی ہے، جن میں 5ہزار بچے شامل ہیں، 30ہزار سے زائد زخمی ہیں اور 18سو بچوں سمیت قریباً 4 ہزار فلسطینی لاپتہ ہیں، کئی کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ غزہ میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ ظالم کا ساتھ دینے والے کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصے سے فلسطینیوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ اُن کی خودمختاری اور آزادی پر اُس نے بدترین قدغنیں لگائی ہوئی ہیں۔ ظلم و سفّاکیت کی حد کرتے ہوئے لاتعداد لوگوں کو شہید کرچکا ہے۔ بم حملے اُس کا وتیرہ ہیں۔ زمینی، فضائی، بحری حملوں سے وہ عرصہ دراز سے فلسطینی کی زندگی دوبھر کیے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کے تقدس کی پامالی کی روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا، اُن سے بھی حقِ زیست چھین لیا جاتا ہے۔ ظلم کی تمام تر حدیں پار کردی گئی ہیں۔ ایسے میں اس کے خلاف آواز اُٹھنا لازمی امر تھا۔ اس لیے حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ فائر کرکے ظالم کے خلاف عَلَم بغاوت بلند کیا اور اب تک حماس اس ظالم ترین ملک سے برسرپیکار ہے۔ وہ آخری وقت تک لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی جدوجہد جلد رنگ لائے گی۔ دُنیا کا یہ قدیم طرز عمل ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس کا خاتمہ نزدیک ہوتا ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ اس کے ظلم کے دن تھوڑے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی یقیناً سرخروئی پر منتج ہوگی۔ فلسطین آزاد ریاست کی صورت دُنیا کے نقشے پر نمودار ہوگی۔ انہیں اسرائیلی تسلط سے جلد نجات ملے گی۔ دُنیا کے سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو اسرائیلی مظالم پر اب بیدار ہوجانا چاہیے۔ آخر کب تک یوں ہی وہ اسرائیل کی درندگی، سفّاکیت، جارحیت پر آنکھیں بند کیے رکھے گا۔
ماحولیاتی آلودگی کا سنگین چیلنج، سدباب ناگزیر
ملک بھر میں ماحولیاتی آلودگی کا عفریت بڑی تباہ کاریاں مچا رہا ہے۔ موسمیاتی تغیر اسی کا شاخسانہ ہے۔ سرد اور گرم موسم اسی کے باعث شدّت اختیار کر رہے ہیں۔ مسلسل اسموگ اسی کی وجہ سے رہتی ہے۔ فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ آفات نازل ہورہی ہیں۔ طرح طرح کے امراض پیدا ہورہے ہیں۔ دُنیا کی بڑی آبادی ان سے متاثر ہورہی ہے۔ ملک عزیز بھی ماحولیاتی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ یہاں بھی زلزلے، سیلاب آرہے اور بڑی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ مہذب دُنیا نے ماحولیاتی آلودگی سے پیدا شدہ تباہ کاریوں کے تدارک کے لیے اقدامات یقینی بنائے ہیں جب کہ یہاں محض بیانات تک محدود رہا گیا۔ اس حوالے سے سنجیدگی دِکھائی ہی نہیں گئی۔ افسوس ہمارے ملک میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے ہولناک حالات کا اکثر عوام کو ادراک تک نہیں ہے۔ ملک میں پہلے ہی جنگلات کی کمی ہے۔ درختوں کی کمی ہے۔ یہ اوامر فضائی آلودگی کے عفریت کی روک تھام میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے اکثر بڑے شہر ماحولیاتی آلودگی کے لحاظ سے دُنیا میں سرفہرست رہتے ہیں۔ کبھی کراچی فضائی آلودگی کے باعث دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نمبروَن ہوتا ہے تو کبھی لاہور اس فہرست میں ٹاپ پر دِکھائی دیتا ہے۔ یہ امر ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ دُنیا میں ملک سے متعلق منفی رائے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اکثر عوام کو اس کی چنداں پروا نہیں۔ وہ اپنے مستقبل سے بے پروا فضائی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ہمارے دو بڑے شہر دُنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے اور تیسرے نمبر پر رہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی کی صورت حال انتہائی خراب رہی اور شہر قائد ہفتے کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا۔ کراچی کا ایئرکوالٹی انڈیکس239ریکارڈ کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تجزیہ کار کے مطابق شہر میں شمال مغرب سے ہلکی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں، ہوا میں نمی کا تناسب زائد ہونے اور فضائی معیار آلودہ ہونے سے اسموگ ہورہی ہے۔کراچی کے بعد دوسرا نمبر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا رہا، جہاں ایئرکوالٹی انڈیکس 196ریکارڈ کیا گیا۔ تیسرے نمبر پر لاہور آیا، جہاں کا ایئرکوالٹی انڈیکس 191ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ فضائی آلودگی کی روک تھام کے لیے پنجاب حکومت کے حکم کے تحت ہفتہ کو لاہور سمیت پنجاب کے10اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈائون کیا گیا، اسمارٹ لاک ڈائون کے تحت تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی دی گئی تھی۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں، سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز میں کھانسی، نزلہ، زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کا رش معمول سے زیادہ رہا۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے چیلنج سے نمٹنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ عوام جب تک اپنی ذمے داریوں کا ادراک نہیں کریں گے اور اس حوالے سے حکومت کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے، تب تک صورت حال بہتر رُخ اختیار نہیں کر سکتی۔ عوام سے گزارش ہے کہ جس طرح وہ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح اپنی گلی، محلوں، عوامی مقامات، تفریح گاہوں، سڑکوں کا بھی خیال رکھیں۔ وہاں گندگی پھیلانے سے گریز کریں۔ کچرا ڈسٹ بن میں ڈالیں۔ شجرکاری مہمات کو تیزی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ ہر شہری اپنے حصّے کا پودا لگائے اور اُس کی آبیاری کی ذمے داری بہ احسن طریقے سے نبھائے۔ انسان دوست ماحول پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ہر طرح کی آلودگی کا راستہ روکا جائے۔ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کے مالکان کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا جائے۔ یقیناً انسان دوست ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے کی گئی کوششیں مثبت نتائج کی حامل ثابت ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button