Editorial

گرانی کے عفریت کو قابو کیا جائے

ملک عزیز کے عوام پچھلے 5، 6سال کے دوران انتہائی مشکل دور سے گزرے ہیں اور اب بھی اُن کے مصائب کم نہیں ہوسکے ہیں۔ اُن کے لیے ہر نیا دن کٹھن آزمائش کے ساتھ آتا اور گزر جاتا ہے۔ مہنگائی کے نشتر اس بے دردی سے برسائے گئے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس قضیے کی ابتدا اُس وقت ہوئی، جب حکمراں مہنگائی کے سبب عوام الناس کی چیخیں نکلنے کی باتیں کرتے پائے گئے۔ تواتر کے ساتھ گرانی میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچائے جاتے رہے، مائونٹ ایورسٹ سر کرائے جاتے رہے اور دعوے عوام کا درد رکھنے کے کیے جاتے رہے، حقیقت میں عوام کا بھرکس نکال کے رکھ دیا گیا۔ معیشت کی صورت حال پہلے ہی دگرگوں تھی، وہ مزید خراب ہوکر رہ گئی۔ کرونا وبا کے باعث بھی کچھ اثرات مرتب ہوئے، لیکن ناقص پالیسیوں کے سبب زیادہ تر معیشت کے حوالے سے حالات دن گزرنے کے ساتھ خراب ہوتے چلے گئے، پاکستانی روپے کو تاریخ کی بدترین بے توقیری سے دوچار کیا گیا، اُس کو ہر بار امریکی ڈالر چاروں شانے چت کرتا دِکھائی دیا۔ اس دوران مہنگائی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ گویا یہ اب تک تین گنا بڑھ چکی ہے۔ ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخ بھی تین سے چار گنا زائد ہوچکے ہیں۔ غریبوں کے لیے اس صورت حال میں روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد مشکل ترین امر بن کر رہ گیا ہے۔ اُن کی آمدن وہی ہے، اخراجات بے پناہ بڑھ چکے ہیں۔ ملک میں غربت کی شرح ہولناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ لاتعداد سفید پوش انتہائی کسمپرسی میں زیست گزارنے پر مجبور ہیں۔ کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں، جہاں فاقے راج کررہے ہیں۔ پچھلے پانچ، چھ سال میں اختیار کی گئی ناقص حکمت عملیوں کی سزا پوری قوم مہنگائی کی صورت بھگت رہی ہے اور اس میں روز بروز شدّت آتی چلی جارہی ہے۔ پچھلے مہینوں ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا۔ اس سے ناصرف ڈالر اور سونے کے نرخ تواتر کے ساتھ نیچے آتے چلے گئے بلکہ اشیاء ضروریہ آٹا، چینی، تیل، گھی اور دیگر کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ڈالر کی قدر گھٹنے اور روپے کے استحکام اختیار کرنے پر نگراں حکومت نے فوری اس کے ثمرات عوام الناس کو منتقل کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 40 روپے کی تاریخ کی سب سے بڑی کمی کی۔ ڈالر کے نرخ مسلسل گر رہے تھے، قوم نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ اب دو ہفتوں سے مسلسل ڈالر کی قدر بڑھتی چلی جارہی ہے اور روپیہ پھر سے بے توقیری اور بے وقعتی کا شکار ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے دنوں جو گرانی میں کمی آئی تھی اب پھر سے اس میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر شے کے دام بڑھ رہے ہیں۔ آٹا، چینی، چاول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔اس حوالے سے سامنے آنے والی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 0.73فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ ادارۂ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کردیے، ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 29.86فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایک ہفتے میں 20اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ایک ہفتے میں 8اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 23کی قیمتیں مستحکم رہیں، ایک ہفتے میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں 25روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، آلو 4روپے سے زائد کا فی کلو اور آٹے کا 20کلو تھیلا 54روپے مہنگا ہوا، لہسن کی فی کلو قیمت میں 11روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 6روپے تک اضافہ ہوا، انڈے فی درجن 3روپے تک مہنگے ہوئے، دال مسور ایک روپیہ 90پیسے فی کلو مہنگی ہوئی، چینی کی فی کلو قیمت میں 57پیسے کا اضافہ ہوا۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران گرانی کی شرح میں اضافہ تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ ضروری ہے کہ پچھلے مہینوں جو ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کیا جارہا تھا، اُس میں مزید شدّت لائی جائے۔ کسی بھی اسمگلر کو نہ چھوڑا جائے اور کسی بھی ذخیرہ اندوز کو نہ بخشا جائے۔ ڈالر کی قدر میں کمی لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ اُن وجوہ کا پتا لگایا جائے کہ آخر کون سا امر ہے، جس کے باعث پچھلے دو ہفتوں سے ڈالر پھر سے مستحکم ہورہا ہے، اس کا تدارک کیا جائے اور ملکی کرنسی کی مضبوطی کی خاطر اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں گرانی کے طوفان کو قابو کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے زائد پر اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کریک ڈائون شروع کیا جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر تمام بازاروں پر چھاپے مارے جائیں اور جو زائد قیمت پر اشیاء فروخت کرتا پایا جائے، اُس کے خلاف کڑی کارروائی کی جائے، نشان عبرت بنایا جائے کہ کوئی مہنگے داموں اشیاء فروخت کرنے کا تصور بھی ذہن میں لاسکے۔ مہنگائی کا مستقل تدارک کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے اور اس کے مطابق اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ قوم پچھلے پانچ، چھ برسوں میں مہنگائی کے بدترین نشتر سہہ چکی ہے، اب وہ مزید گرانی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کے مصائب کا مداوا کرتے ہیں، اُن کی مشکلات کا حل نکالتے ہیں، ان کے مسائل بڑھانے کی وجہ نہیں بنتے۔ لہٰذا حکومت کو عوامی مشکلات میں کمی کی خاطر اور مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے سنجیدہ اور راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔
جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ پر قدغن
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پچھلے 75سال سے بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ سوا لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑیں، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کتنے ہی بچے یتیم ہوئے، کوئی شمار نہیں۔ ظلم و ستم کا سلسلہ عشروں تک جاری رہا، لیکن اب پچھلے ایک عشرے سے اس میں خاصی شدّت آچکی ہے۔ انتہا پسند مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے وادی جنت نظیر کے باسیوں کی زندگی مزید مسائل و آلام میں گِھر چکی ہے۔ گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو اُٹھاکر غائب کر دیا جاتا ہے، بڑی تعداد میں کشمیری مسلمان لاپتا ہیں۔ گمنام اجتماعی قبروں کی بھی بارہا نشان دہی ہوچکی ہے۔ بھارت کی درندہ صفت فوج کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی چلی آرہی ہے۔ ظلم اور درندگی کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ دردمند انسان اُنہیں سن کر کانپ اُٹھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے۔ وہ اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی مذہبی عبادات بھی آزادی کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے۔ پچھلے پانچ ہفتوں سے جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ کے اجتماع کا انعقاد ہونے نہیں دیا جارہا، یہ مسجد تب سے مقفل ہے جب کہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے حریت پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نظربند ہیں۔ گزشتہ روز بھی نماز جمعہ کے اجتماع کا انعقاد بھارت کی قابض انتظامیہ نے نہیں ہونے دیا۔ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض انتظامیہ نے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو مسلسل پانچویں جمعہ کو بھی مقفل رکھا اور لوگوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انجمن اوقاف جامع مسجد نے سری نگر میں جاری ایک بیان میں کہا، قابض انتظامیہ نے اس خدشے کے پیش نظر جامع مسجد میں نماز جمعہ کا اجتماع بھارت اور اسرائیل مخالف مظاہرے میں تبدیل ہوسکتا ہے، مسلسل 5ہفتوں سے نماز جمعہ پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کی مسلسل گھر میں نظربندی کی بھی شدید مذمت کی گئی جب کہ بھارتی فورسز نے مسلسل تیسرے روز بھی سری نگر، اسلام آباد، پلوامہ، کولگام، شوپیاں اور بارہ مولا اضلاع کے متعدد علاقوں میں چھاپے مارے اور تلاشی لی۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان نے کہا کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مودی دور کشمیری مسلمانوں کے لیے خاصی گراں رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا بھی اسی دور میں خاتمہ کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں عالمی ضمیر خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ اقوام متحدہ بھی اپنے ہاں منظور کردہ قراردادوں پر بھارتی حکومت سے عمل درآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ کشمیریوں کو اُن کی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی نہیں۔ ظلم و ستم کی رات کافی طویل ہوچکی ہے۔ اب عالمی ضمیر کو بیدار ہوجانا چاہیے اور کشمیر کا مسئلہ وہاں کے مسلمان باشندوں کی منشا کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button