فلسطین کے مسئلے کو ایک دانشور طبقہ عربوں کا مسئلہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا اس سرزمین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایسے میں اس دعوے کے برعکس ہمیں یہ معلوم پڑتا ہے کہ برصغیر کی سرزمین کا بڑا نام اور چشتی سلسلے کی جد امجد بابا فرید الدین گنج شکر نہ صرف فلسطین میں مسجد اقصی’ کے ساتھ رہے بلکہ آج بھی انکا حجرہ انکے نام سے منسوب ہے اور موجود ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ جب صلاح الدین ایوبی کی فوج کو صلیبیوں نے یروشلم سے نکال باہر کیاتھا تو بابافریدالدین گنج شکر وہاں پہنچ گئے ، یہ 1200 عیسوی کا زمانہ تھا۔
یہاں پہنچنے کے بعد بابا فرید اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد پتھرکے فرش پر جھاڑو لگاتے یا روزہ رکھ کر اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار کی خاموشی میں عبادت میں گزارتے تھے،
یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ بابا فرید کتنا عرصہ بیت المقدس میں رکے، لیکن ان کی پنجاب واپسی اور پھر سلسلہ چشتیہ کے سربراہ بننے کے برسوں بعد تک بھی ہندوستان سے حج کے ارادے سے جانے والے لوگ مکہ کے راستے میں بیت المقدس میں قیام کرتے رہے،
ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس مقام پر نماز پڑھیں جہاں بابا فرید نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ سوئیں جہاں بابا فرید سوئے تھے۔ دھیرے دھیرے بابا فرید کی یادوں سے منسلک جگہ پر آستانہ بن گیا اور ’ہندوستانی سرائے‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا مہمان خانہ بھی جہاں ہندوستانی حاجی قیام کرتے تھے۔
اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی بیت المقدس دنیا بھر کے صوفیوں کو اپنی جانب کھینچتا رہا ہے۔ ان لوگوں میں کچھ عجیب و غریب کردار بھی شامل تھے۔ کچھ روشنی کی تلاش میں ننگے پاؤں قصبہ قصبہ پھر رہے تھے اور کچھ مجنون جو صحرا میں اونی چوغے پہنے پھرتے رہتے تھے اور جہاں رات پڑتی وہاں ریت پر ہی سو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں وہ تارکِ دنیا کردار بھی شامل تھے جو خدا کی یاد میں گریہ کرتے اور محبت کے گیت گاتے قریہ قریہ پھرتے رہتے تھے لیکن ان صوفیوں کے ماننے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی۔ صلاح الدین نے اس متبرک شہر میں صوفیوں کا کھْلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا اور شہر کے تمام مزاروں اورمقبروں پر صوفیانہ اظہارِ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی۔
یہی وہ ماحول تھا جس میں ہندوستانی حاجیوں کا پہلا قافلہ پنجاب کی روائتی دھنوں اور سازوں کے ساتھ بابا فرید کی سرائے پر پہنچا تھا۔ہو سکتا ہے کہ اپنی پنجابی دھنوں میں یہ حاجی بابا فرید کا کلام ہی گا رہے تھے کیونکہ بابا فرید نے ایک دو نہیں ، بلکہ ہزاروں ایسی نظمیں تخلیق کی ہیں جن میں عشق حقیقی کے بیان کے لیے بھی عشق مجازی کے استعارے استعمال کیے جاتے ہیں۔بابا فرید نے اپنے دور کی دونوں بڑی مذہبی زبانوں عربی اور سنسکرت کے بجائے اپنی مادری زبان پنجابی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس سے پہلے کسی نے ادب میں پنجابی زبان استعمال نہیں کی تھی۔
بابا فرید کی شاعری نے نہ صرف پنجابی ادب کی بنیاد رکھی بلکہ ان کی نظموں نے پنجاب کی صوفی روایات اور سکھوں کی مذہبی روایات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔یہ بابا فرید کے صوفیانہ کلام کا کمال ہی ہے کہ ان کی درجنوں عارفانہ نظموں اور اشعار کا پرتو ہمیں سکھوں کی مقدس ترین کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔بابا فرید کے بیت المقدس میں قیام کرنے کے بعد کے تین چار سو برسوں میں دنیا بھر کے صوفیوں کو یہاں آ کر ہندوستانی صوفیوں کے مریدوں سے ملنے کا موقع ملا۔