Ali HassanColumn

قومی عام انتخابات

علی حسن
بڑے ہی تردد کے بعد مقتدر حلقوں نے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرا دیا ہے۔ آئینی تقاضوں کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کے حامی کئی ماہ سے دبائو ڈال رہے تھے لیکن عام انتخابات کے انعقاد میں التوا کے حامی اسے مختلف حربوں اور طریقوں سے ٹالنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان کے اس طریقے نے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنا کر پیش کیا جہاں آئینی تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے بلکہ وہ ایک ’’ بنانا ری پبلک‘‘ ہو۔ بہر حال عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ 8فروری طے کر کے اعلان کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی مہر تصدیق لگادی کہ اس اعلان کے بعد کہا کہ انتخابات کو اب ٹالنا نہیں چاہئے۔
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کا ریکارڈ سرے سے بہتر نہیں ہے۔ 1970ء سے قبل یہاں ایک آدمی ایک فرد کی بنیاد پر الیکشن نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ طریقہ کار جو انگریزوں نے تشکیل دیا ہوا تھا جس کے تحت بڑے زمیندار ہی انتخابات میں کامیاب ہوا کرتے تھے۔ 1970ء میں مار شل ء کے نفاذ کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر کیا گیا تھا ۔ عام تاثر تو یہ ہی ہے کہ 1970ء میں انتخابات صاف اور شفاف تھے۔ کیا واقعی وہ انتخابات پاکستان الیکشن کمیشن کے مونو گراہم پر درج اصولوں کی بنیاد پر ہی منعقد ہوا تھا۔ وہ تو ’’ آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ایسا تھا تو ملک کے 1970ء میں مغربی پاکستان کے اس وقت کے سینئر سیاست دان نواب زادہ نصر اللہ خان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ انہوں نے اپنے تبصرے میں کہا تھا ’’ ملک میں انتخابات آزادانہ نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمان نے انتخابات والے روز ہی کہا تھا ’’ ہم نے لڑکا لوگ ( کارکنان عوامی لیگ) سے پوچھا کہ الیکشن کیا چل رہا ہے۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ صد فیصد۔ ہم نے ان کو کہا تھا کہ کم از کم ’ بڈھے‘ کی سیٹ تو چھوڑ دو‘‘۔ ( بڈھے سے مراد ملک کے اس وقت کے معمر ترین سیاست دان نور الامین سے تھے)۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ نور الامین کامیاب ہو سکے تھے اور دوسرا فرد چکمہ قبائل کے سربراہ راجہ تری دیو رائے تھے۔ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ 162میں سے 160سیٹوں پر کامیاب ہو گئی تھی، مخالفین کو عوامی لیگ کی مکتی باہنی نے جو اس کا ’’ تھنڈر سکواڈ‘‘ تھا، تہس نہس کر دیا گیا تھا ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ تھا کہ اسے مغربی پاکستان سے ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی تھی۔ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی، فوج نے کارروائی ڈالی تو بھارت نے مداخلت کر کی باقاعدہ جنگ چھیڑ دی اور پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو نام تبدیل کر کے بنگلہ دیش کر دیا تھا اور پاکستان کے دو لخت ہو جانے کے بعد بھارت نے بنگلہ دیش کا اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کر دیا تھا۔ عوامی لیگ کے سربراہ مغربی پاکستان میں بغاوت کے الزام میں قید تھے جنہیں مغربی پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ نے رہا کر کے بنگلہ دیش روانہ کر دیا تھا۔ جہاں وہ بنگلہ بندھو قرار پائے تھے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اکثریت جماعت کی حیثیت سے کامیاب ہوئی تھی۔ دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ، جمعیت علماء پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی کے امیدواران کامیابی حاصل کر سکے تھے۔ 1970ء میں ہوش مند سیاستدان برملا اعتراف کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں بھی انتخابات میں دھاندلی کرائی گءی تھی۔ انتخابات کے انعقاد کی عجیب افسوس ناک داستان ہے۔ لیکن سیاستدانوں اور الیکشن کمیشن نے کوئی سبق نہیں لیا۔
کیا وہ ہے کہ انتخابات میں مقتدر حلقے، سیاستدان کیوں مداخلت کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن آنکھیں کیوں موند کر رکھتا ہے۔
کبھی بھی الیکشن کمیشن کے کسی سربراہ نے ایسی اخلاقی جرات اور ہمت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا کہ وہ مستعفی ہو جاتے۔ انہیں شائد اپنی لیاقت اور قابلیت پر اعتبار اور یقین نہیں تھا کہ انہیں دوبارہ کہیں ملازمت مل سکے گی۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزام میں ہنگامے اور احتجاج ہوئے تھے۔ اسی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مار شل لاء نافذ کر دیا تھا۔ ان کا یہ قدم آئین میں دفعہ چھ کی موجودگی کے باوجود اٹھایا گیا تھا۔ دفعہ چھ کہتا ہے کہ آئین سے بغاوت پر مقدمہ چلا کر سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ نوے روز میں انتخابات منعقد کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن 1977ء کے بعد جنرل ضیاء نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد کرائے تھے جس میں ’’ کنگز‘‘ پارٹی کے امیدوار ہی کامیاب ہو گئے تھے۔ اس ملک میں کنگز پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ڈھیروں امیدوار بھی مل جاتے ہیں اور نامزدگی کے لئے سیاسی لوگ بھی اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے۔
یہ انتخابات ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ جلا وطنی سے واپسی کے بعد منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کرا پاتے۔ پیپلز پارٹی کی اکثریت کی صورت میں کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے بی بی مرحومہ کو اپنی شرائط پر ہاتھ پائوں باندھ کر اقتدار سونپا تھا، جسے بی بی صاحبہ نے بحالت مجبوری کہیں یا خوشی خوشی قبول کر لیا تھا اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم قرار پائی تھیں۔ 1988 ء کے بعد ہونے والے تمام انتخابات ما سوائے 2008 ء منصفانہ انتخابات قرار نہیں دئیے گئے تھے ۔ 2008ء میں انتخابات بی بی کی شہادت کے بعد ہو رہے تھے۔ اس کے نتائج میں بھی شکوک تھے کہ ضلع ٹھٹھہ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے نامزد ہونے والے چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اگر دھاندلی کی گئی تو وہ اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ بی بی مرحومہ نے بھی ایک انتخابات کے بعد کہا تھا کہ یہ چمک کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح جیسے 2018 ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ان کے مخالفین خصوصا پیپلز پارٹی نے ’’ سلیکٹڈ‘‘ کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔
اس تماش گاہ میں 8فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات کے لئے نئے سرے سے صف بندی ہوا جاتی ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ لنگوٹ کس چکے ہیں۔ تحریک انصاف بہت ہی زخمی حالت میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہو گی، انتخابات کے نتائج پر عوام اعتماد کریں تو بہتر یہ ہی ہوگا کہ ان نتائج کو تمام سیاسی قوتیں اور مقتدر حلقے من و عن تسلیم کر کے پاکستان کو حقیقی جمہوریت کی پٹری پر ڈالیں، ملک کی معاشی صورتحال، کسی تجربہ کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے اور اس کا تقاضہ بھی یہ ہی ہے کہ ساری قوتیں اپنی اپنی آئینی ذمہ داری ادا کریں، ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کریں، کیوں کہ یہ ہی اس ملک کی بقا کے لئے لازم ہے۔ کون ایسا ہوگا جو اس ملک کی بقا نہیں چاہتا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button