ColumnNasir Naqvi

ساہنوں مرن دا شوق وی اے؟

ناصر نقوی
صورت حال اس بات کی چغلی کر رہی ہے کہ پاکستانیوں کو حقیقی جمہوریت، سیاسی بحران ، معاشی بہتری، عوامی ترقی و خوشحالی کے لیے ابھی بہت سے امتحانوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ’’ کج انج وی راہواں اوکھیاں نیں، کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی اے‘‘۔۔۔۔۔ یہ راز برسوں پہلے ممتاز شاعر منیر نیازی آشکار کر چکے ہیں لیکن ہمارا اور ہمارے لیڈروں کا شوق ہی پورا نہیں ہو رہا، پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خاں جلسہ عام میں قتل ہو گئے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے ہزاروں اختلاف کریں لیکن وہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے۔ ایک آمر نے بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر اسے پھانسی کا پھندا پہنا دیا۔ ہم خواب خرگوش سے بیدار نہیں ہوئے ۔ منتخب حکومتیں بنتی بگڑتیں رہی اور مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے۔ منتخب حکومت کو زبردستی چلتا کیاگیا تو قوم و ملک کے ہمدرد غیر آئینی اقدام کی مذمت کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ مضبوط کر کے اپنے مفادات کا حصّہ لینے ہی نہیں پہنچے اسے دس مرتبہ وردی میں منتخب کرانے کا اعلان بھی کیا جس میں جتنی طاقت تھی اس نے اتنا ساتھ دیا، یہی نہیں ’’ عدالت عظمیٰ‘‘ نے بھی آئینی تبدیلی کی اجازت دے کر تاریخ کے اوراق کالے کر دئیے۔ پھر جب بات اپنے مفاد کی آئی تو آزاد عدلیہ کا نعرہ لگا کر ’’ وکلاء برادری‘‘ کو استعمال کر لیا، تحریک چلی، خوب چلی لیکن پھر اچانک سابق وزیراعظم نواز شریف کی دبنگ انٹری ہوئی اور پھر جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تحریک کی مرکزی قیادت اعتزاز احسن چودھری اور علی احمد کرد جیسے بلند پایہ قانون دان آج بھی شرمندہ ہیں۔بات آگے چلی، پارلیمانی نظام کی بقاء اور ریاستی استحکام ہی نہیں عوامی ترقی و خوشحالی کے لیے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا گیا۔ ایک منتخب حکومت کے خلاف اسلام آباد میں طویل ترین دھرنا اور یادگار لشکر کشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین کا صدارتی دورہ بھی ملتوی کرایا گیا اور اس ساری سیاسی و جمہوری جدوجہد میں سانحہ لیاقت باغ راولپنڈی کا ’’ ری پلے‘‘ بھی چلا، مسلم اُمہ اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو عوامی اجتماع میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ پھر بھی نہیں آئی، کیونکہ ’’ شوق دا کوئی مل نئیں‘‘ ۔۔۔۔ اسی لیے ایک سابق وزیراعظم پھر سلاخوں کے پیچھے قید ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اسے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ تم نے قومی سلامتی اور ریاستی اداروں سے کھلواڑ کیا ، اس لئے تمہارا مقدر پھانسی گھاٹ یا عمر قید کی کال کوٹھری ہے لیکن امید انہیں بھی ہے کہ جونہی ’’ لابی‘‘ کی کوششیں کامیاب ہوں گی وہ بھی نواز شریف کی طرح نہائے دھوئے ایک روز عوام میں آ جائیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’ الیکشن‘‘ اگر صاف و شفاف ہوں تو ان کے نامزد کھمبے بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ مقبول ترین لیڈر ہیں اور عوام جانتی ہے کہ ان جیسا دوسرا کوئی نہیں؟؟؟ حالانکہ ہم اور ہمارے ہم عصر جانتے ہیں کہ 76سال میں صرف بھٹو صاحب کے نامزد کھمبے کامیاب ہوئے ہیں، وہ ایک ڈکٹیٹر کی حکومت چھوڑ کر عوام میں آئے اور چھا گئے لیکن جتنی تیزی سے آئے اتنی ہی جلدی ان کے اقتدار کی شمع اپنے نادان دوستو ں کی سہولت کاری سے بجھ گئی، پھر آمر مطلق جنرل ضیاء الحق نے ایسی فصل بوئی کہ آج تک حکومتیں میرٹ کی بجائے گروپ بندی اور درپردہ لابی کی نذر ہو گئیں۔ جمہوریت کے نام پر وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جمہوری استحکام کے لیے جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا، لہٰذا پڑھے لکھے اور عوامی حلقوں میں جمہوریت سے اعتبار اٹھ گیا اور اشرافیہ اپنے من پسند گروہوں کی سرپرستی کر کے ’’ ایمپائرز‘‘ کے خصوصی تعاون سے ’’ اقتدار‘‘ تقسیم ہوتا رہا۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے جب اپنے میدان میں غیر سیاسی اور انتظامی کھلاڑی اتار دئیے تو میدان بھی پرایا ہو گیا، پھر بھی ’’ تبدیلی‘‘ سرکار دس بیس سال کے اقتدار کی خواہش مند رہی۔ یہ بھول گئی کہ میدان تو اپنا رہا ہی نہیں، سارا گورکھ دھندا معاہدے اور مک مکا کا تھا لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ مفاہمتی سیاست دان آصف علی زرداری کا فرمان ہے وعدے وفا نہ کئے جائیں تو انسان کی شخصیت پر حرف آتا ہے لیکن معاہدے آسمانی صحیفہ ہرگز نہیں ہوتے، یہ ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں ویسے بھی سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی یہ شطرنج کی چال ہے جو عقل کے استعمال سے ہر لمحے چال بدل سکتی ہے ، اب اگر عقل سے ہی لوگ پیدل ہوں تو پھر وہ اشاروں کی سیاست ہی کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس کی سربراہی میں جنرل الیکشن کی حتمی تاریخ 8فروری 2024ء طے کرا دی ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن اور ایوان صدر کی باہمی رضامندی سے ہوا ہے اس میں سہولت کاری بظاہر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی تھی جنہوں نے پہلے مذاکراتی دور کی ناکامی کے باوجود کمال مہارت سے دونوں فریقین کو رضا مند کر لیا اس فیصلے پر فریقین کے دستخط اور اٹارنی جنرل کی گواہی کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حقیقی سہولت کاری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کا فرمان ہے کہ اب 8فروری 2024ء پتھر پر لکیر ہے لہٰذا میڈیا بھی احتیاط کرے کسی قسم کا ابہام پیدا نہ کرے بلکہ مثبت خبریں دیں ، بات اتنی ہوتی تو یقینا قومی اجتماعی مفاد میں ہضم ہو جاتی لیکن انہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر کوئی الیکشن ملتوی کی اب بھی بات کرے تو ’’ پمرا‘‘ اس سے دو دو ہاتھ کرے، ماضی میں بھی جنرل آصف غفور میڈیا سے اسی قسم کی رعایت چھ ماہ کے لیے مانگ چکے ہیں نتیجہ وہی نکلا جو اس خواہش کا نکلنا تھا، قاضی صاحب ماضی میں اپنے اصولی موقف پر جن حالات سے گزرے، میڈیا نے اس میں ہر ممکن ساتھ دیا لیکن موجودہ خواہش میڈیا کو ہضم نہیں ہو سکی کیونکہ فرمان قاضی ہے کہ ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے، کسی کو کسی دوسرے کی حدود میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس فرمان سے مثبت خبروں کی خواہش رکھنے والے خود ہی منفی سوچ میں پھنسے دکھائی دئیے اس لیے کہ اگر کوئی سیاستدان ابھی بھی یہ پوچھے کہ کیا 8فروری کو الیکشن ہو جائیں گے ؟ تو میڈیا اسے کیسے یہ چلائے کہ 8فروری کو الیکشن ہو جائیں گے؟ فرق صرف ’’ کیا‘‘ کے استعمال کا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کے دوران ایک صاحب سے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر مارشل لاء نہ لگا تو 28جنوری کو الیکشن ہو جائیںگے۔ ہم اور ہمارے دوستوں نے یہ خبر اپنے ’’ وی لاگ‘‘ میں دے دی، راجہ صاحب نے ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا لیکن یہ بات تسلیم کی کہ انہوں نے یہ کہا تھا محض بات سمجھانے کی خاطر۔۔۔۔۔ اب اس خبر میں صحافی کی غلطی کیوں اور کیسے نکالی جا سکتی ہے؟ اس حقیقت کو جاننا چاہیے کہ ’’ میڈیا‘‘ کی اکثریت ملک و ملت کی وفادار اور اپنی دھرتی سے پیار کرتی ہے ماسوائے ان چند لوگوں کے جن کی پیدائش میڈیا میں وقتی ضرورت کے مطابق ’’ ٹیسٹ ٹیوب‘‘ کے ذریعے کی گئی ہے یا جو لوگ میڈیا کی چمک دمک دیکھ کر ’’ پیرا شوٹ‘‘ کے ذریعے آدھمکے ہیں ان کی نہ تربیت ہو سکی اور نہ ہی وہ ’’ ریٹنگ‘‘ کے شوق میں اپنی ورکنگ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ایسے لوگوں کو مشورہ ہے کہ نہ وہ صحافی ہیں اور نہ ہی بن سکتے ہیں اگر انہیں رعب اور خصوصی مقام درکار ہے تو کسی پرائیویٹ لاء کالج کی راہ اختیار کریں اس وقت سب سے مضبوط اور رعب دار من مانی کرنے ولا طبقہ کالا کوٹ، کالی ٹائی ہے، میدان صحافت میں ماضی کا مقام بھی ان موقع پرستوں نے قصّہ ماضی بنا دیا ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو موجودہ صورت حال میں سیاست اور صحافت شعبہ جات میں میرٹ سے زیادہ ’’ لابی‘‘ اور گروہ بندی کا دور دورہ ہے، اسی وجہ سے ہماری اکثریت جمہوریت کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی آمرانہ سوچ کی مالک ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں شب و روز آمرانہ ادوار کو بُرا بھلا کہنے کے باوجود آئین اور قانون کے مطابق نہ جمہوری انداز میں اپنے الیکشن کراتی ہیں اور نہ ہی مالی معاملات کی درستی رکھتی ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وقت آنے پر مصنوعی انداز سے سب ٹھیک ہو جائے گا جب تک ان اداروں میں نامزدگی سے کام چلانے کا رجحان ختم نہیں ہو گا اس وقت تک جمہوریت اور عوامی ترقی و خوشحالی بھی ممکن نہیں ہو گی۔ جمہوریت کی بنیاد ’’ بلدیاتی نظام‘‘ اور رواداری و برداشت کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ دعووں کے سوا کہیں نظر نہیں آتا۔ پہلے دو پارٹی نظام تھا، سمجھداروں اور ذمہ دارو ں نے اسے توڑنے کے لیے تیسری پارٹی کو طاقت بنا کر پیش کیا لیکن ’’ میرٹ‘‘ کے ہاتھوں مار کھا گئے، ان تینوں جماعتوں پر الزامات ایک سے ہیں اس لیے مصنوعی سہارے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ قاضی کے فرمان کے مطابق ایسی بات بالکل نہیں کی جا سکتی کہ الیکشن نہیں ہو رہے، جسے مرنے کا شوق ہے وہ ضرور چیلنج کرے، فی الحال الیکشن کی تیاریاں کریں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ شیڈول کے ساتھ ہی تمام پارٹیوں کو ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ ملے گا لیکن بلاول کہتے ہیں ہمیں کبھی’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ نہیں ملی اور یہی دعویٰ اسحاق ڈار کا ہے کہ ہمیں بھی کبھی ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ نہیں ملی لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے حقیقت وہ نہیں ہے، اقتدار اور مفادات کے بہت سے غلام ایسے ہیں جو اقتدار کی غلام گردش میں اپنا سر پھنسانے کے خواہشمند ہیں کیونکہ بحیثیت قوم ’’ ساہنوں مرن دا شوق وی اے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button