CM RizwanColumn

جھوٹ، منافقت کا موسم بہار شروع

سی ایم رضوان
آج وطن عزیز میں جو غریب کو روٹی، مریض کو دوائی، سائل کو انصاف، بچوں کو تعلیم، بیروزگار کو ڈھنگ کا روزگار، ضعیفوں کو جانی مالی تحفظ، خواتین کو عزت، شہریوں کو تحفظ، ملکی معیشت کو سنبھالا، پاکستانی سفارت کاری کو ڈھنگ کی آزاد پالیسی، کشمیر کو آزادی، فلسطینی عوام کو جنگ سے نجات اور ملک کے بااثر طبقات کو ان کے جرائم کی سزائیں نہیں مل رہیں، ان سب قباحتوں، مظالم اور جرائم کے پیچھے صرف ایک امر کارفرما ہے اور وہ ہے ہمارے سیاستدان طبقات کی منافقت، بدعملی اور بدخواہی کیونکہ یہ سیاست دان جو وعدے اور دعوے اپنی انتخابی مہم کے دوران کرتے ہیں۔ منتخب ہو کر ان سے یکسر مکر جاتے ہیں اور پھر بہانہ بازی سے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ملک و قوم کی خدمت کے سوا ہر حربہ اپناتے ہیں۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر ان سیاستدانوں کو جھوٹ اور منافقت کا مینا بازار لگانے کا موقع مل گیا ہے اور آئندہ انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ متحرک مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی دکھائی دیتی ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے قومی، صوبائی حلقوں کے لئے جنرل، مخصوص سیٹوں کے امیدواروں کے فارم جاری اور درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں۔ البتہ پیپلز پارٹی نے پہلے ہی سے پنجاب میں نہ ہو پانے والے انتخابات کے لئے جو درخواستیں لی تھیں انہی کو اپ ڈیٹ کر لیا ہے جبکہ اب قومی اسمبلی کے امیدواروں سے بھی درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں۔ لیکن مبینہ وطن دشمنی کی بناء پر سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک و دیگر بھی اپنے طور پر انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کی زیر صدارت اجلاس میں تیاریوں کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پارلیمانی بورڈ، منشور کمیٹی بنانے سمیت ٹکٹوں کے لئے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں۔ پارٹی قیادت نے ابتدائی حکمت عملی بھی تیار کر لی ہے ہر حلقے میں مضبوط امیدوار موجود ہیں۔ عظمیٰ بخاری کے مطابق مینار پاکستان جلسے کے بعد عوامی رابطہ مہم شروع ہو چکی تھی۔ تمام نشستوں کے لئے امیدواروں کو درخواست فارم جاری کر دیئے گئے اور 10نومبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ درخواست فارم میں تحریر کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل اور مخصوص نشست پر 2لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ایک لاکھ روپے کا بینک ڈرافٹ لگانا لازمی ہوگا۔
پاکستان میں جب بھی عام انتخابات کا وقت آتا ہے تو الیکشن سے پہلے ہی سیاسی جماعتوں کی منافقت بھری قلابازیوں سے ان کے ایک دوسرے سے اتحاد اور قربت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی الیکشن سے قبل ہی سیاسی صف بندیوں کے اشارے واضح ہو رہے ہیں۔ اس بار مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان دونوں کو کامیابی کا یقین ہے۔ اس بار مسلم لیگ ن، پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں اور سابق اتحادیوں کو بھول کر زیادہ سے زیادہ طاقتور حکومت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ شنید ہے کہ انہیں آئی پی پی کو ساتھ ملانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کے پاس اب پی ٹی آئی، مولانا یا دیگر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنی کے علاوہ کوئی رستہ نہیں۔ البتہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے لہٰذا انتخابی نتائج کے بعد ہی کوئی حتمی اتحاد بن سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس لئے بنی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نو مئی کے واقعات کے بعد قوم کے لئے ناقابل قبول اور انتخابی عمل کا موثر انداز میں حصہ نہیں بن پا رہی۔ پی ٹی آئی سے جنم لینے والی آئی پی پی کیونکہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے بنائی ہے اور یہی وہ رہنما تھے جو الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں لائے تھے۔ اب بھی ان کے پاس بیشتر سابق اراکین اسمبلی یا کم از کم ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ وہ اب بھی ان کے ذریعے ہی زیادہ سے زیادہ نشستیں لینا چاہتے ہیں۔ جس طرح آئی پی پی بنی ہے اس سے ظاہر ہے کہ انہیں ن لیگ کو مضبوط کرنے اور اقتدار کے حصول میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے کردار سونپا گیا ہے۔ بہرحال منافقت، مفادات اور جھوٹ کے علاوہ ان تمام پارٹیوں کے پاس عوام کے لئے کچھ بھی نہیں۔
اپنی تازہ ترین منافقانہ روش کے تحت شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بظاہر مفاہمت آمیز لہجہ میں پاکستان تحریک انصاف کو میثاق جمہوریت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے جس پر ماضی میں دو مرکزی جماعتوں نے یہ امر یقینی بنانے کے لئے دستخط کیے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی اقتدار میں آنے یا جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو مدد نہ دے یا
اسٹیبلشمنٹ سے مدد حاصل نہ کرے۔ گزشتہ روز جے ڈی سی فانڈیشن کے تحت مفت تشخیصی لیب کے افتتاح پر گفتگو کے دوران بلاول بھٹو نے انتخابی تاریخ کے اعلان کے پیشِ نظر حریف جماعت پی ٹی آئی کے لئے نسبتاً نرم رویہ اپناتے ہوئے اس کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی پی ٹی آئی کی حالیہ مذموم کوششوں کی بھی حمایت نہیں کی جبکہ صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکان کو بھی فیصلہ سے مشروط کہا۔ میثاق جمہوریت سے متعلق خیال ظاہر کیا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت میں آنا چاہیے۔ یہ بہت اچھا ہوگا کہ پی ٹی آئی بھی اس میثاق جمہوریت کو تسلیم کر لے اور اس میں شامل ہو جائے۔ یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اس وقت کی جلاوطن قیادتیں اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کے نزدیک آ گئی تھیں اور مئی 2006میں لندن میں دونوں نے اس میثاق جمہوریت معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ہم آہنگی اور مفاہمت پر مبنی نئے سیاسی نظام کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تاکہ پاکستان میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ دو سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط شدہ یہ دستاویز وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں فوجی حکمرانی کے خلاف ان کی مشترکہ کوششوں کا زبانی کلامی دعویٰ تو بنی مگر بوجوہ کبھی بھی ٹھوس ذریعہ نہ بن سکی۔ بہرحال بلاول بھٹو نے اپنی اصل سیاسی تکلیف کا اظہار بھی اس شکایت کے اعادہ سے کیا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب نہیں، پھر بھی وہ اس حوالے سے منافقانہ طرز پر اعتماد میں نظر آئے کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ماضی کے کسی بھی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی، حتیٰ کہ 1988اور 2008کے عام انتخابات میں بھی ان کے پاس لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا مینڈیٹ حاصل کیا اور حکومتیں بنائیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی بھی ہمیشہ طاقتور حلقوں کی اشیر باد سے ہی اقتدار میں آئی ہے۔ بلاول بھٹو کی ایک اور منافقت ملاحظہ ہو کہ انہوں نے اسے تمام سیاسی جماعتوں کی عظیم کامیابی قرار دیا کہ بالآخر الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کر دیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہتر تھا کہ سپریم کورٹ کو مداخلت نہ کرنا پڑتی۔ بلاول بھٹو نے اپنے پرانے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کے حالیہ بیانات پر تبصرہ سے گریز کیا جو تاحال عام انتخابات انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملکی مفادات سے ہٹ کر سابق وزیر خارجہ نے یہ اعتراض بھی اٹھا دیا کہ پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کی واپسی کا عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ خواہ مخواہ کا فلسفہ جھاڑتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحیح کام کو غلط طریقے سے انجام نہیں دیا جا سکتا۔ ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں اور جب انسانی حقوق کی بات آئے تو ہمارا بہت سخت موقف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے نمٹنے کے لئے ایک مناسب طریقہ کار موجود ہوتا ہے لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے۔ اِس عمل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، قانون پر عمل ضرور ہونا چاہیے لیکن اس عمل میں انسانی حقوق کے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ القصہ صرف لیڈری جھاڑنے کے علاوہ ان سیاستدانوں کے پاس کچھ بھی نہیں یہ قوم کے نہیں اپنے مفادات کے ایجنڈے کے تحت انتخابات کی مہم چلاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button