Editorial

غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی ڈیڈلائن کا آج آخری روز

پاکستان کی معیشت پچھلے کچھ سال سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ 2001سے 2015تک جاری رہنے والی دہشت گردی نے اس کو بے پناہ زک پہنچائی۔ سرمایہ کاروں کو یہاں سے اپنا سرمایہ سمیٹ کر دوسرے ممالک کی جانب راغب ہونا پڑا۔ امن و امان کی ابتر صورت حال معیشت کے لیے سوہانِ روح تھی۔ ملک بھر میں دہشت گردی کے بدترین سلسلے تھے۔ پاک افواج نے آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں جاری رہیں، جن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ کتنے ہی دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا گیا، کتنے ہی گرفتار ہوئے اور جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی بہتری سمجھی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ملک بھر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ معیشت نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ سی پیک ایسا گیم چیلنجر منصوبہ شروع ہوا۔ حالات بہتر رُخ اختیار کر رہے تھے کہ پھر حکمرانوں نے معیشت کے ساتھ ایسے سنگین کھلواڑ کیے کہ اُس کا بٹہ بٹھا کر رکھ دیا گیا۔ پچھلے پانچ، چھ سال کے دوران معیشت کو جان بوجھ کر ترقی معکوس کا شکار کیا گیا۔ ملکی وسائل پہلے ہی کم تھے، اُن کو مزید محدود کردیا گیا، سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام روک دیا گیا یا بالکل سست رفتار کردیا گیا۔ دوست ممالک کو ناراض کیا گیا۔ مہنگائی کے نشتر غریب عوام پر انتہائی بے رحمی سے برسائے گئے۔ ہر شے کے دام آسمان پر پہنچا دئیے گئے۔ پاکستانی روپے کو تاریخ کی بدترین پستی کا شکار کیا گیا۔ امریکی ڈالر ہر بار ہی اُسے چاروں شانے چت کرتا دِکھائی دیا۔ معیشت کی حالت انتہائی ابتر کردی گئی۔ ایسی صورت حال میں ملک و قوم پچھلے کافی عرصے سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ملک عزیز اور اس کے وسائل پر سالہا سال سے بوجھ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے ہیں۔ یہ یہاں کئی عشروں سے ناصرف رہ رہے ہیں، بلکہ ان کی تین چار نسلیں بھی یہاں پروان چڑھ چکی ہیں ۔ جعل سازی سے انہوں نے یہاں کی دستاویزات بھی حاصل کرلی ہیں۔ اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں بھی بنالی ہیں۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ ملک میں منشیات کلچر کے فروغ میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ منشیات سمیت دیگر اشیاء کی اسمگلنگ میں بھی بڑی تعداد میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتوں میں بھی بڑی تعداد میں غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے ملوث ہوتے ہیں۔ وسائل پہلے ہی کم ہیں، ان کی میزبانی میں ملکی وسائل کا بڑا حصّہ صَرف ہوجاتا ہے اور عوام محروم رہتے ہیں۔ اس تناظر میں نگراں حکومت نے تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لیے ایسے تمام عناصر کو 31اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ یکم نومبر سے ایسے افراد کے خلاف کریک ڈائون کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ایک لاکھ کے قریب غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے اپنے وطنوں کو لوٹ چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں اپنے ملکوں کو روانگی کی تیاریوں میں ہیں۔ اس فیصلے کو اکثر حلقوں نے سراہا تھا۔ اس سے ملک میں وسائل کی کمی کا مسئلہ نا صرف حل ہوسکے گا، بلکہ معیشت پر بوجھ بننے والے غیر قانونی پناہ گزینوں کا بار بھی کم ہوگا۔ دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں کمی واقع ہوگی۔ حکومتی ڈیڈلائن کا آج آخری روز ہے۔ اس حوالے سے ذرائع کے مطابق غیر قانونی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے مختلف آبادیوں میں اسکیننگ اور غیر ملکی افراد کی میپنگ آخری مراحل میں داخل ہوگئی، غیر ملکی افراد کے پاس موجود دستاویزات کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں دستاویزات نہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ گرفتار غیر قانونی غیر ملکیوں کے لیے ہولڈنگ ایریاز اور عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، ہر کیمپ میں رجسٹریشن ڈیسک پر ایف آئی اے کا عملہ مصروف عمل رہے گا، رجسٹریشن ڈیسک پر نادرا کا سافٹ ویئر بارڈر مینجمنٹ سسٹم سے منسلک ہے۔ ادھر پاک افغان طورخم بارڈر پر رضاکارانہ واپسی کے لیے افغانوں کا رش لگ گیا، ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی افغان مہاجرین افغانستان واپس جارہے ہیں۔ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کا وطن عزیز سے انخلا ناگزیر ہے۔ اس سے ملکی معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ محدود وسائل پر لدا بوجھ کم ہوگا۔ ملک میں دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں کمی ہوگی۔ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے قبیح دھندوں میں کمی آئے گی۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ ازخود اپنے وطنوں کو واپس چلے جائیں اور وہاں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔ ضروری ہے کہ اگر آج تک غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے اپنے وطنوں کو نہیں لوٹتے تو ان کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون کیا جائے۔ انہیں کسی طور نہ چھوڑا جائے۔ ان کے خلاف آپریشن کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک ان کا مکمل انخلا نہیں ہوجاتا۔ ملک و قوم کے مفاد میں تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کا پاکستان سے چلے جانا بہتر ہے۔ اس سے صورت حال خاصی بہتر ہوجائے گی۔
مودی دور میں مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسنے والے مسلمان پچھلے 75سال سے بھارت کے ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ بھارتی فوج کی سفّاکیت، درندگی، انسانیت سوز مظالم کے سلسلے دراز ہیں۔ سوا لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کتنے ہی گرفتار ہوئے، کتنے ہی لاپتا ہوئے، کوئی شمار نہیں۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوئے، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑیں، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوئیں، اس کا بھی کوئی درست شمار موجود نہیں۔ بے گناہوں کو چادر اور چہار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اُن کے گھروں سے اُٹھالینا اور پھر غائب کردینا بھارتی فوج اور پولیس کا وتیرہ ہے۔ کتنی ہی گمنام قبریں سامنے آچکی ہیں۔ دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں کشمیری مسلمان اذیت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کے تمام تر حقوق سلب ہیں۔ پہلے مظالم کے سلسلے کم نہ تھے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات مزید بدترین رُخ اختیار کر چکے ہیں۔ ظلم، تشدد، درندگی، سفّاکیت کی انتہا ہوچکی ہے۔ جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی گئی ہے، اُس کے بعد سے تو بھارتی ریاستی دہشت گردی کے واقعات مزید شدّت اختیار کر چکے ہیں۔ ظالم خود مظلوم ہونے کا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ کبھی جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں تو کبھی جھوٹ پر مبنی فلمیں اور پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں کے مطابق آج تک اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو اُن کا حق خود ارادیت نہیں دیا جاسکا ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے بھارت کو اس پر آمادہ کرنے میں سنجیدگی ہی نہیں دِکھاتے۔ یوں وہ ظالم کے ساتھ اس ظلم میں برابر کے حصّہ دار بنتے رہتے ہیں۔تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارت کی طرف سے 5اگست 2019کو دفعہ 370کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سری نگر میں اپنے انٹرویوز اور بیانات میں کہا، 5اگست 2019کو مودی حکومت کے یک طرفہ، غیر قانونی اور ظالمانہ اقدامات کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوجوان لڑکوں اور خواتین سمیت 800سے زائد کشمیریوں کو شہید، 2380سے زائد کو زخمی اور 21ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قتل و غارت، تشدد، گرفتاریاں، محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں اور گھروں پر چھاپے اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کشمیریوں کے ہر حق کو نظرانداز کر رہاہے۔ مودی کی بی جے پی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کرکے بین الاقوامی قانون اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے۔ یہ چشم کُشا حقائق ہیں، جنہیں ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ کوئی بھارت سے اُس کے بدترین مظالم پر بازپرس تک نہیں کرتا۔ پاکستان ہر عالمی فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ عرصۂ دراز سے لڑتا چلا آرہا ہے۔ کشمیر بھارتی ظلم و ستم سے لہو لہو ہے۔ وادی جنت نظیر کے لوگوں کے چہروں پر آزادی کی آس ہے۔ اُن کے دل آزادی کے سورج کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں اور ان شاء اللہ ایک روز ایسا ضرور ہوگا۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو اپنے ضمیر کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ حق کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔ کشمیریوں کو اُن کا حق خودارادیت دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button