ColumnRoshan Lal

بھٹو بھی کبھی کچی جماعت میں پڑھتا تھا

تحریر : روشن لعل
ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش اگر جاگیردار گھرانے کی بجائے کسی محنت کش خاندان میں ہوئی ہوتی تو ان کے متعلق یہ سوچا جاسکتا تھا کہ انہوں نے بھی کبھی تختی کو گاچنی لگا کر پوچا ہوگا۔ بھٹو نے کیونکہ ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کا شمار اپنے دور کے آسودہ ترین خاندانوں میں ہوتا تھا اس لیے یہ بات خارج از امکان ہے کہ انہیں کسی ایسے سکول میں داخل کرایا گیا ہوگا جہاں تختیاں پوچی جاتی ہوں۔ بھٹو نے چاہے تختی نہ پوچی ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ انہیں تعلیم دینے کا آغاز الف، ب، پ یا A، B، Cپڑھانے سے نہ کیا گیا ہو۔ بھٹو کا ابتدائی تعلیمی ادارہ کیتھیڈرل سکول بمبئی تھا۔ شاید بھٹو نے کچی پہلی یا پکی پہلی جسے لوئر ون اور اپر ون بھی کہا جاتا ہے کی تعلیم بمبئی کے مذکورہ سکول سے حاصل کی تھی۔ کتھیڈرل سکول بمبئی سے پڑھائی کا آغاز کرنے کے بعد بھٹو نے برکلے اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بھٹو کی اعلیٰ تعلیم کا حوالہ چاہے جتنی بھی بڑی ڈگریوں سے جڑا ہوا مگر ان کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے کبھی کچی پہلی یا لوئر ون کی پڑھائی نہیں کی تھی۔
کچی جماعت سے آغاز اور آکسفورڈ اور لنکنز ان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھٹو جب پاکستان واپس آئے تو پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے کے لیے ان کے پاس دیگر آپشنز کے ساتھ مقابلے کا امتحان پاس کر کے سیکشن افسر یا کسی تحصیل کا اے سی بننے یا پھر وکالت کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں میں جج لگنے کا آپشن بھی موجود تھا۔ مذکورہ دو آپشن استعمال کر کے وزیروں کا ماتحت بننے کی بجائے بھٹو نے خود وزیر بننے کا آپشن استعمال کیا۔ بھٹو نے 1958ء میں صدر سکندر مرزا کی کابینہ میں کامرس منسٹر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس سے قبل بھٹو نے پاکستانی وفد کے کم عمر ترین رکن کی حیثیت سے ا قوام متحدہ کی بین الاقوامی قوانین سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کر کے جو تقریر کی اس سے ان کی صلاحیتوں کا نہ صرف بین الاقوامی بلکہ قومی سطح پر بھی خاص اعتراف کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے بھٹو کی عملی سیاست کا بھی آغاز ہوا تھا۔ ان دنوں بین الاقوامی معاملات پر چاہے بھٹو کی جتنی بھی گہری نظر تھی مگر مقامی سطح پر وہ مسلم لیگ کی سیاست سے جڑے ہوئے تھے۔ فکری طور پر مسلم لیگ کی قریب ہونے کی وجہ سے ہی بھٹو سکندر مرزا کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد کسی پس وپیش کے بغیر مارشل لا ڈکٹیٹر ایوب خان کی کابینہ کا بھی حصہ بن گئے۔ بھٹو چاہے سکندر مرزا کے بعد ایوب خان کی بھی کابینہ کا حصہ بنے رہے مگر ان کیلئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایوب خان انگلی پکڑ کر انہیں سیاست میں لے کر آیا تھا۔ بھٹو اگر بیورو کریسی یا عدلیہ کا حصہ بن کر سکندر مرزا کے بعد ایوب حکومت کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہتے تو شاید کبھی کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی مگر سکندر مرزا اور ایوب کی کابینہ کا حصہ بن کر اپنا سیاسی سفر شروع کرنے کی وجہ سے بعض لوگ ان کے متعلق ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو اکثر میاں نوازشریف اور عمران خان کے لیے کی جاتی ہیں۔
نوازشریف اور عمران خان کو جو لوگ سیاست میں لے کر انہوں نے ان کی اس طرح پرورش کی کہ یہ دونوں ہمیشہ ان کے اطاعت گزار بن کر رہیں ۔ بھٹو اگرچہ سکندر مرزا یا پھر ایوب خان کی کابینہ میں شامل رہے مگر ان کے مزاج سے آشنا کوئی شخص یہ تصور نہیں کر سکتا کہ انہیں وزارتیں دینے والوں نے کبھی ان کو اپنا اطاعت گزار بنانے کا خواب دیکھا ہوگا۔ ایوب کابینہ میں بھٹو نے مختلف وزارتوں پر فائز رہتے ہوئے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنا پر کامرس منسٹر سے وزیر خارجہ کے عہدے تک کا سفر طے کیا۔ اس سفر کے دوران بھٹو کے ذہنی ارتقا کا سفر بھی جاری رہا۔ اپنے ذہنی ارتقا کی بدولت بھٹو نے اس وقت ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیا جب وہ 1965ء کی جنگ کا فاتح بن کر خود کو ملک کا مقبول ترین لیڈر سمجھنا شروع ہو گیا تھا۔ بھٹو نے عوام کے معاشی حقوق سے لاتعلق مسلم لیگی کی حیثیت سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا مگر ایوب کے زمانہ عروج میں اسے چھوڑ کر پیپلز پارٹی کے نام سے ایسی جماعت قائم کی جس کا سب سے بڑا نعرہ ’’ سوشلزم ہماری معیشت‘‘ رکھا گیا۔ جو شخص پہلے کبھی مسلم لیگی ہوا کرتا تھا بعد ازاں پیپلز پارٹی قائم کرنے پر تمام مسلم لیگی اس کی جان کے دشمن بن گئے۔
بھٹو کے متعلق یہاں جو کچھ بھی لکھا گیا اس میں کوئی بات بھی انکشاف نہیں ہے۔ بھٹو کی زندگی کے تمام واقعات تاریخ میں اس طرح درج ہیں کہ نہ انہیں چھپایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے متعلق مبالغہ آرائی کی جاسکتی ہے۔ بھٹو کے ایوب کابینہ میں وزیر ہونے کے ذکر پر ان کے کئی مداح نہ جانے کیوں یا تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں یا پھر بہت زیادہ غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ بھٹو کے ایوب کابینہ کا حصہ ہونے پر نہ غصہ اور نہ ہی معذرت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایوب خان کی کابینہ کا حصہ تو گزشتہ دنوں وفات پانی والے ایس ایم ظفر بھی تھے ۔ کیا بھٹو اور ایس ایم ظفر کو ایک صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔ ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے والے کو کسی طرح بھی بالغ نظر اور ذی فہم نہیں سمجھا جاسکتا ۔ بھٹو نے تو اپنے ذہنی ارتقا کی بدولت ایوب خان کے دور حکومت میں ہی اپنی سمت تبدیل کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا تھا مگر ایس ایم ظفر مرتے دم تک ایوب دور میں اختیار کی گئی سمتمیں چلتے رہے۔ اسی سمتمیں چلتے ہوئے وہ ایوب کے بعد ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں کا حاشیہ نشیں بننے میں بھی پہل کرتے نظر آئے۔ بھٹو نے ایوب سے علیحدہ ہو کر جو سمت اختیار کی تھی بعد ازاں اسی سمت میں چلتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم بن کر حکومت کی۔ انسان ہونے کے ناطے بھٹو کو بشری کمزوریوں سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ان کے متعلق کبھی بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اپنی سمت تبدیل کرنے کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ بھٹو نے جس راہ پر اپنا سفر شروع کیا تھا بعد ازاں موت کی پروا کئے بغیر اسی راہ پر چلتے رہے۔
ہر طالب علم کی طرح بلا شبہ بھٹو نے بھی کبھی کچی جماعت میں پڑھائی کی تھی مگر بھٹو کا کوئی ناقد یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا ہے کہ ایک مرتبہ کچی جماعت سے آگے جانے کے بعد انہوں نے کبھی دوبارہ اسی جماعت میں پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اپنے شعور کی بجائے مفادات کے تحت وقتی طور پر انقلابی بننے والے ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو ضیا الحق کے بنائے ہوئے سکول میں داخلہ لے کر بار بار کچی جماعت میں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ان کے حواری یہ صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ بھٹو بھی تو کبھی کچی جماعت میں پڑھا کرتا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button