Editorial

اسرائیلی مظالم کی انتہا 8000فلسطینی شہید

فلسطینی مسلمان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ غاصب اسرائیل کے مظالم میں دن بہ دن تیزی آتی جارہی ہے۔ پون صدی میں اُس نے کیا کم ظلم کے پہاڑ فلسطینیوں پر توڑے تھے، جو اَب سفّاکیت، درندگی، جارحیت کی انتہا پر آمادہ ہے۔ بدترین حملوں کے سلسلے ہیں۔ 8000فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ 4ہزار معصوم فلسطینی بچوں کو زندگی سے محروم کرنے کے باوجود اسرائیل باز نہیں آرہا۔ غزہ لہو لہو ہے، اس کے پورے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی عدم فراہمی کی صورت حال ہے۔ ایک بڑا انسانی المیہ جنم لیتا دِکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ روز اسرائیل کے حملے میں غزہ میں قائم آخری انٹرنیٹ کیبل بھی تباہ ہوکر رہ گئی، جس سے غزہ کا دُنیا بھر سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ زخمیوں کی تعداد بے پناہ بڑھ چکی ہے۔ ہر جگہ درد سے کراہتے مظلوم فلسطینی ہیں۔ آہ و بکا کی صورت حال ہے۔ خود کو مہذب کہلانے والے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ناجائز ریاست اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ اُس کی بھرپور تائید کر رہے ہیں۔ اس دُنیا کے ظالم ترین ملک کو مظلوم قرار دیتے نہیں تھک رہے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے پرتل گیا ہے، زمینی فوج غزہ میں داخل، سمندر میں موجود بحریہ کی کشتیوں اور طیاروں سے اب تک کی سب سے زیادہ تباہ کن بمباری جاری ہے۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری سے مزید 500فلسطینی شہید ہوگئے، اقوام متحدہ کے ریلیف ایجنسی کے 15اہلکار صرف ایک ہی روز میں مارے جاچکے ہیں جبکہ اب تک مجموعی طور پر22ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے باعث مختلف مقامات پر دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی ہے جبکہ کئی مقامات پر آگ بھڑکنے کے سبب دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ محصور شمالی علاقے بیت لاحیہ، بیت حنون، غزہ شہر کے شمال مغربی اور وسطی علاقے سب سے زیادہ نشانہ بنائے گئے۔ غزہ شہر کے جنوب میں واقع الشاتی کیمپ میں ایک رہائشی ٹاور کو زمین بوس کیا گیا، جس میں 100سے زائد افراد شہید ہوئے، اسی علاقے میں دو گھروں پر بھی حملے کیے گئے، جن میں 16 افراد شہید اور 60زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے دھمکی دی ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی نوعیت ہی بدلی جاچکی ہوگی، فلسطینیوں کو پھر کہا گیا ہے کہ وہ غزہ کا پورا شمالی علاقہ خالی کرکے جنوب کی جانب منتقل ہوجائیں۔ غزہ میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ لائنز مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں، جس کے سبب لوگوں کا آپس میں رابطہ بھی ختم ہوچکا ہے، ایسے میں خدشہ ہے کہ آج شب کی گئی فلسطینیوں کی نسل کشی دنیا کے سامنے ظاہر بھی نہیں ہو سکے گی۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں کام کرنے والے عملے سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے، ہمیں غزہ میں ساتھیوں کی حفاظت سے متعلق سخت تشویش ہے۔ یونیسیف نے کہا کہ غزہ میں 10لاکھ بچوں کیلئے ناقابل بیان وحشت کی ایک اور رات کے بارے میں انتہائی فکرمند ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش سے غزہ پٹی میں عملے سے رابطہ منقطع ہوچکا۔ سکاٹش فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف نے کہا ہے کہ ان کا غزہ میں اپنی فیملی سے رابطہ نہیں ہورہا، صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ حیات ہوں۔ ادھر اسرائیلی فوج نے امریکی اور فرانسیسی خبر رساں اداروں کو بھی خبردار کردیا ہے کہ ان کے صحافیوں کی سیکیورٹی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی۔ حماس کی القسام بریگیڈ کا کہنا ہے کہ خونریز جھڑپیں جاری ہیں، اسرائیلی فوجیوں کی باقیات غزہ کی سرزمین نگل جائے گی۔ دوسری جانب فلسطینی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سروس کی معطلی غزہ پٹی پر زمینی حملے کا پیش خیمہ ہے۔ الجزیرہ کے بیورو چیف وائل الدحدوح کے مطابق قریباً 100اسرائیلی طیارے غزہ پر بمباری کر رہے ہیں، اسرائیلی توپ خانے نے بھی غزہ پر گولا باری کی ہے، اسرائیلی طیاروں نے الشفا اسپتال کے قریب بھی بمباری کی۔ رپورٹ کے مطابق مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے باعث فوری طور پر بمباری میں ہونے والے جانی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے عرب گروپ کی جانب سے قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی اس صورت حال پر دل گرفتہ ہیں۔ انہوں نے غزہ میں لاکھوں انسانوں کی تباہی پر بے بسی کے عالم میں اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ تاریخ ہم سب کا فیصلہ کرے گی، غزہ میں 20لاکھ انسانوں کو تباہی کا سامنا ہے، شہریوں کیلئے ناقابل تصور تباہی ہے، یہ سچائی کا لمحہ ہے، تاریخ ہم سب کا فیصلہ کرے گی، سب اپنی ذمے داریاں ادا کریں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں زندگی بچانے والے سامان کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور اسرائیل سے فوری حملے روکنے کے مطالبات کیے گئے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ترکیہ میں ریلیاں نکالی گئیں، استنبول میں اس حوالے سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس سے ترک صدر رجب طیب اردوان نے خطاب کرتے ہوئے مغربی ملکوں کے دہرے معیار پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ آپ یوکرین میں مرنے والوں کے لیے آنسو بہاتے ہیں، لیکن آپ غزہ کے بچوں کے لیے آواز کیوں نہیں اُٹھاتے؟ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی بڑی احتجاجی ریلی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان سمیت انڈونیشیا، فلسطین کے مقبوضہ علاقوں، نیوزی لینڈ، امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیلی درندگی کے خلاف شدید مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ فلسطین میں جاری المیے کی وجہ بننے والے نام نہاد مہذب دُنیا کے ممالک کے سربراہوں کی جانبداری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور آنے والے وقتوں کے انسان ہمیشہ انہیں بُرے القاب سے پکارا کریں گے۔ فلسطینی پچھلے 75سال سے تاریخ کے بدترین ظلم و جبر سے گزر رہے ہیں۔ ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوکر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹکرانا دہشت گردی ہرگز نہیں۔ اسے اپنے حق کے لیے لڑنا کہتے ہیں، اسے اپنی آزادی اور خودمختاری کی جنگ گردانا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسی قوموں کو ہیرو گردانا جاتا تھا۔ اسرائیل کو بدترین زوال آئے گا۔ اُس کا کوئی نام لیوا بھی نہیں بچے گا۔ فتح فلسطینیوں کا مقدر بنے گی۔ تاریخ ان شاء اللہ فلسطینی مسلمانوں کو ہمیشہ نیک نامی سے یاد رکھے گی۔
جعلی دستاویزات کا گھنائونا دھندا، تدارک ناگزیر
جعل سازی ہمارے ملک میں عام ہے۔ لوگ باگ ڈرائیونگ و اسلحہ لائسنس اور تعلیمی اسناد تک جعلی بنوا کر اپنے کام چلاتے ہیں۔ حالانکہ وہ اگر تھوڑی تگ و دو کریں تو اصل اسلحہ اور ڈرائیونگ لائسنس ضرور حاصل کر سکتے ہیں جب کہ تعلیم مکمل کرکے اور یکسوئی سے امتحانات میں کامیاب ہوکر تعلیمی اسناد بھی پا سکتے ہیں، لیکن اکثر لوگوں میں سہل پسندی کی خصلت اُنہیں اس مشق سے باز رکھتی ہے اور وہ غیر قانونی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تبھی تو ملک بھر میں جعلی تعلیمی اسناد، ڈرائیونگ و اسلحہ لائسنس اور پراپرٹی کے جعلی کاغذات کا کاروبار عروج پر پہنچا ہوا ہے اور اس گھنائونے دھندے میں کئی گروہ ملوث ہیں جو لوگوں کو بھاری رقوم کے عوض یہ دستاویز فروخت کرتے ہیں۔ یہ اپنا دھندا دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس پر اب تک قدغن نہیں لگائی جا سکی ہے۔ کبھی کبھار ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے خلاف کارروائیاں ضرور عمل میں لائی جاتی ہیں، لیکن ان کا مکمل قلع قمع اب تک نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان کا خاتمہ کرنے میں ناکامی ہی ہاتھ میں دِکھائی دیتی ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت حال پراپرٹی کے جعلی کاغذات کے حوالے سے پیدا ہوتی ہے۔ حق دار محروم رہ جاتے ہیں اور غاصب مالِ مفت سمجھ کر اُن کی جائیداد ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ملک کے اکثر بڑے شہروں میں ایسے گروہ موجود ہیں، جو جعلی دستاویزات کی تیاری سے بھرپور کمارہے ہیں۔ لوگوں کا حق غصب کیا جارہا ہے۔ آخر کب تک اس قسم کے دھندے ہمارے ملک میں فروغ پاتے رہیں گے۔ کب ان کا خاتمہ عمل میں لایا جائے گا۔ آخر کب حکومت اور متعلقہ ادارے ان خرابیوں کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کارروائیاں عمل میں لائیں گے؟ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک و طول و عرض میں یہ گھنائونا دھندا پنپ رہا ہے۔ اس کا تدارک ناگزیر ہے اور اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں، کیونکہ معاشرے میں سدھار کے لیے اس دھندے کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں حکمت عملی طے کی جائے اور اس کے تحت اس گھنائونے دھندے میں ملوث گروہوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں عمل میں لائی جائیں۔ سب سے بڑھ کر ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک ان مذموم عناصر کا قلع قمع نہیں ہوجاتا۔ ان کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی عمل میں لائی جائے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ضرور مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button