ColumnFayyaz Malik

بہادر باپ کی بہادر بیٹی

تحریر: فیاض ملک
قیام پاکستان سے اب تک خواتین کے سیاسی کردار سے انکار ممکن نہیں، اگر ہم تحریک پاکستان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی کامیابی میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ رہیں، محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دیگر ان گنت خواتین ایسی تھیں جو مشکل ترین حالات میں بھی تحریک کو آگے لیکر بڑھتی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح جس جوانمردی سے سیاست سے وابستہ رہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، بعد ازاں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہ کا اعزاز بھی ایک پاکستانی خاتون بے نظیر بھٹو کو ہی حاصل ہوا، بے نظیر بھٹو نے جس طرح اپنی سیاست کا آغاز کیا اور پوری دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا وہ بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے اور اب سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی سیاسی جدوجہد کے چرچے بھی ہر سو دکھائی دیتے ہیں، بے نظیر بھٹو شہید کے بعد بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مریم نواز نے بہت نڈر طریقے سے ہر طرح کے حالات کا سامنا اور مقابلہ کیا،5جولائی 2017ء کی صبح جوڈیشل اکیڈمی کے باہر کھڑی اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی بیٹی کے الفاظ تاریخ میں امر ہو گئے، جب انہوں نے کہا مجھے نواز شریف کی کمزوری سمجھنے والے یہ جان لیں کہ میں نواز شریف کی طاقت ہوں۔ ایک بیٹی کے یہ الفاظ ادا تو چند لمحوں میں ہوئے مگر ان لفظوں کا بھرم رکھنے کی خاطر اس بیٹی کو ہر روز ایک نئی جدوجہد کرنی پڑی، اس کے بعد ہر روز مقدمات، پیشیوں، الزامات اور کٹہروں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہو گیا اور مقصد تھا صرف ایک اور وہ تھا مائنس نواز، اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز
نے سیاسی تربیت اپنے والد میاں نوازشریف اور اپنے چچا شہباز شریف سے بخوبی حاصل کی اور یہ ثابت کیا کہ وہ عظیم باپ کی بہادر بیٹی ہیں۔ مریم نواز کی مشکلات اور سیاسی جدوجہد پر اگر نظر دوڑائیں تو ایک پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں ایک عورت کا بہادری سے ڈٹ جانا گویا مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کی بہترین مثال ہے۔ مریم نواز 28اکتوبر 1973ء کو پیدا ہوئیں، انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری لی، ابتدائی طور پر 2012 ء میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیا،2013 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی جس کو ایسے نبھایا کہ مخالفین بھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے لگے، مریم نواز کو مسلم لیگ نے عام انتخابات 2013ء کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا۔ مریم نواز کو 22نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی ذمہ داری سونپی گئی جسے انہوں نے بخوبی نبھایا لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مخالفین نے اپنی سیاسی چالیں چلنا شروع کر دیں۔ مریم نواز نے 13نومبر 2014ء کو عہدے سے استعفیٰ دے دیا تاہم وہ سیاسی میدان میں عملی جدوجہد میں مصروف کار رہیں، اپریل 2016میں مریم نواز، ان کے بھائی حسن نواز شریف اور حسین نواز شریف کے نام پانامہ دستاویزات میں آئے جو مبینہ طور پر ٹیکس چوری کا معاملہ ہوسکتا تھا اسکے باوجود مریم نواز ڈرنے کے بجائے ثابت قدم رہیں۔6 جولائی2018ء کو انہیں 7سات سال قید اور 2 ملین پونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی، فیصلہ سنائے جانے کے وقت والد اور بیٹی دونوں کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن میں موجود تھے جس کے بعد انہوں نے واپس آنے کا اعلان کیا اور پھر واپس آکر گرفتاری بھی دی، دوران قید مریم نواز نے سخت مشکلات کا سامنا کیا، پہلی بار گرفتاری کے بعد جب رہائی ملی تو انہوں نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور بڑے بڑے جلسوں میں نواز شریف کی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے ملک کے طول و عرض میں گئیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ن لیگ کی سیاست کو زندہ رکھا اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ٹف ٹائم دیا۔ انہوں نے اپنے والد اور خود پر لگے الزامات کے دفاع میں ہر فورم استعمال کیا اور انہوں نے مزاحمتی سیاست کو فروغ دیا۔ جس کے رد عمل میں کئی سال تک ان کا پاسپورٹ ضبط رکھا گیا اور مریم کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ملی تھی، نا اہلیت کے بعد میاں نواز شریف جب مریم نواز کو اپنے جانشین کے طور پر سامنے لائے تو کہا جا رہا تھا کہ یہ پارٹی چلانے اور سیاست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں مگر وقت نے ثابت کیا کہ مشکلات کے باوجود وہ کس طرح نا صرف ڈٹ کر کھڑی رہیں بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ہر عدالت ہر مقدمے، جس میں میاں نواز شریف کو گھسیٹا گیا ان کی بیٹی کو ان کے ساتھ شریکِ جرم ٹھہرایا گیا شاید یہ سوچ کر کہ نواز شریف اپنی تو جان بھی نظریات پر قربان کر دے مگر اپنی بیٹی پر ہونیوالی سختیوں سے ڈر کر جھک جائے مگر وہ بیٹی جس پر وار کر کے نواز شریف کو ہرانے کا منصوبہ تھا وہ نواز شریف کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی ان دو سالوں کی جدوجہد صرف ایک بیٹی کی باپ کی خاطر کی جانیوالی جدوجہد نہیں بلکہ ایک سسکتی، لڑکھڑاتی اور گرتی جمہوریت کو دوام بخشنے کی ایک کامیاب کوشش بھی تھی۔ اس آزمائش کا سب سے تلخ باب نواز شریف کی شریکِ حیات بیگم کلثوم نواز کی بیماری ہے۔ میاں نواز شریف کو نااہل کیا جاتا ہے اور وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے الگ کیا جاتا ہے، فیصلہ ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی خالی نشست پر ان کی اہلیہ اور پاکستان کی تین بار خاتونِ اول رہنے والی کلثوم نواز الیکشن لڑیں گی۔ الیکشن مہم شروع ہونے سے پہلے ایک معمول کے چیک اَپ میں کینسر کی تشخیص ہوئی، جس کا فوری طور پر برطانیہ میں علاج شروع کروا دیا گیا۔ ایسے موسم میں جب طوفان کی ہر ہوا مخالف تھی اور میاں نواز شریف کو بھی اپنی اہلیہ کے پاس لندن جانا پڑا، تو اس کٹھن اور تاریخ ساز الیکشن مہم چلانے کی ذمہ داری مریم نواز نے اپنے کندھوں پر لی۔ جن حالات کا مقابلہ کر کے وہ الیکشن مریم نواز نے اپنی والدہ کے نام کیا ان کو عوام بخوبی جانتی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ملک بدری میں دیکھنے کے خواب کی امید پر یہ سارا کھیل کھیلا گیا تھا اور یہ خواب اس وقت ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے جب مریم نواز صاف الفاظ میں کہ دیتی ہیں کہ ہم ذاتی ذمہ داریوں کو قومی ذمہ داریوں پر قربان کر دیں گے ، آج بھی سیاست کے تمام ستارے ان بہادر باپ بیٹی کے گرد گھومتے ہیں، آج بھی آزادی کی قیمت نظریے کی قربانی ہے جو اس بہادر باپ بیٹی کو قبول نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کے اصولوں پر قائم قیدی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ظالم حکمرانوں سے جیت جاتے ہیں اور یہ بازی بھی بہادر باپ اور بہادر بیٹی کے نام رہے گی۔ مریم نواز نے مشکل وقت میں اپنے والد نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر نہ صرف ایک بہترین سیاسی قائد ہونے کا ثبوت دیا بلکہ فرمانبردار اولاد بھی ثابت ہوئیں، جو ایک جانب کینسر میں مبتلا اپنی والدہ کلثوم نواز کی تیمارداری بھی کرتی رہیں تو دوسری طرف مشکلات میں گھرے والد کو بھی انہوں نے مکمل سپورٹ فراہم کی۔ آج ن لیگ کا سیاسی مستقبل مریم نواز شریف سے وابستہ ہے۔ انہوں نے سیاسی جلسوں میں جس طرح اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا اسی کی بدولت آج ن لیگ پھر سے عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔ اب اقتدار کے ایوانوں میں بھی یہ آواز پوری شدت کے ساتھ گونج رہی ہے کہ آنے والا کل مریم نواز شریف کا ہے۔ آج مریم نواز شریف ایک بیان دیتی ہیں تو پاکستان کے طول و عرض میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس لئے کہ وہ بے باک و بہادر ہے۔ وہ سچ بول رہی ہے، اسے اس بات کی پروا نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ وہ لگن کے ساتھ، حوصلے کے ساتھ، ہمت و استقلال کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ وہ بہادر باپ کی بیٹی نڈر بیٹی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button