Column

بڑا صوبہ، بڑے کھیل۔۔۔!

تحریر : طارق خان ترین
جب بلوچستان میں نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت کھیلوں کی طرف راغب ہورہے ہوں تو یقین کیجئے بلوچستان کے نوجوان زندہ دل ہیں، ان تمام صوبوں سے، جن کے حکومتی اقدامات بلوچستان کی حکومت سے بہت درجہ زیادہ ہے۔ مگر جب تک حکومت بلوچستان نوجوانوں کے لئے اقدامات سے قاصر رہے گی تب تک یہاں کے سیاستدان، قوم پرست اور دیگر طبقات ان سے ناجائز فائدے اٹھاتے رہیں گے۔ بہرحال ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کھیلوں کے بڑے معرکوں انعقاد ہوا۔ صوبے کے دور دراز کشادہ علاقوں میں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے صوبے کی مثبت تصویر کو اجاگر کرتے رہے ہیں، جو کہ ایک ایسا صوبہ ہے کہ جس کو پسماندگی، غربت، بے روزگاری جیسے احساس محرومی کے الفاظ کے ساتھ ہمیشہ سے یاد اور منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ حالات و واقعات اب ان جیسے شرمندہ الفاظ سے قدرے بہتر ہیں۔ یہاں نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت تعلیمی میدان میں، تحقیق کے میدان میں، ٹیکنالوجی، کھیل و سیاحت کے میدانوں میں پیش پیش ہوکر اپنے صوبے اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شعبہ کھیل کو تمام ادوار میں نظر انداز کیا گیا، جس کے سبب یہاں کے نوجوان پس کر رہ گئے اور صرف اسی ایک شعبے کی وجہ سے تمام تر شعبہ جات زندگی متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔
میں بار بار اپنے کالموں میں ڈپریشن کی ریشو کا ذکر اسی لئے کرتا رہتا ہوں کیونکہ یہ محکمہ کھیل کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ جن کی غیر فعالی کی وجہ سے 43فیصد ڈپریشن ریٹ پہنچ چکی ہے۔ اس وقت 2017ء کے مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 22کروڑ ہے، جن میں سے 67فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، دنیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان 5ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں اس وقت کم و بیش 5کروڑ لوگ ذہنی معذوری یعنی ڈپریشن، ڈرگز کا بے تحاشہ استعمال، شراب نوشی، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر، بد ہضمی، ذہنی دبائو اور اس کی وجہ سے ذہنی دیوانگی، شیزوفرینیا یعنی دماغی بیماری، جس کی وجہ سے کسی شخص کے برتائو میں تبدیلی وغیرہ شامل ہے، کے شکار ہیں۔ اسی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کے سامنے سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایک لاکھ مریضوں کے لئے صرف 0.19ماہر نفسیات موجود ہیں۔ یہ امر بذات خود ایک بہت بڑا صدمہ ہے تو ایسے میں ان متاثرین کی مدد کیسے کی جاسکتی ہے۔
اب جبکہ ملک میں 5کروڑ لوگ ذہنی تنائو کے شکار ہیں، بلوچستان سے اگر اس کی فیصد نکالیں تو 2017ء کے مردم شماری کے مطابق صوبے کی کل آبادی 1کروڑ 30لاکھ کے قریب ہے۔ اور یہاں پر ڈپریشن ریٹ 43فیصد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 55لاکھ 90ہزار سے زیادہ لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے ہیں۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے فی الحال یہ 43 فیصد کا تخمینہ2019ء کا ہے، موجودہ کیا ہے، ان اشاروں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ صوبے میں ذہنی تنائو کے شکار لوگوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بیماری کے مختلف وجوہات ہیں، جن میں تعلیم کا گرتا ہوا معیار اور وہ طلبا جو مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ التحسین ہیں کو روزگار کی عدم فراہمی، مسلسل پراسرار واقعات کا ہونا اور ان کا میڈیا پر آنا، جھوٹ، دروغ گوئی اور پراپیگنڈوں کی بھرمار، معاشرے میں مادہ پرستی کا بڑھتا رجحان، اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کے رجحانات، تمام تر ادارے جو عوام کی خدمت کے لئے بنائے گئے ہیں، ان کے دروازوں کا بند ہونا نہ صرف بلکہ دروازوں کا ایلیٹ کلاس کے لئے کھلنا اور ضرورت مندوں کے لئے بند ہونا، یعنی معاشرے کا ’’ ہم‘‘ کے بجائے ’’ میں‘‘ پر آنا، جیسی بہت ساری وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے عوام احساس محرومی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ مگر ان تمام تر وجوہات کو دیکھتے ہوئے میں پھر سے کہنا چاہوں گا کہ سب سے بڑا کردار محکمہ کھیل کی غفلت کا ہے، جو نہ تو کھیلوں کے فروغ پر متعین ہے اور نہ ہی ادارہ عوام بالخصوص نوجوانوں کو کھیل کی طرف راغب کرنے میں کردار ادا کر رہاہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، جس پر مجھ سے بہت سے لوگوں نے گلے شکوے بھی کئے، مگر حقائق کو لانا میری ذمہ داریوں میں ہے۔ اس لئے مقتدر حلقوں کو چاہئے کہ اس محکمے کو فوری طور پر نوجوانوں کے بہترین مستقبل کے لئے مرکوز رکھ کر بحال کریں، اس کی تنظیم نو ضرور ہونی چاہیے تاکہ بلوچستان میں موجود ذہنی تنائو کو نا صرف کم کیا جاسکے بلکہ اس کو جڑ سے ختم بھی کیا جاسکے۔
بہرحال پچھلے جمعہ کے دن ضلع پشین میں آل بلوچستان خدمت خلق فائونڈیشن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام کرکٹ فائنل کھیلا گیا جس میں میں بذات خود بطور اعزازی مہمان شریک رہا۔ اس ایونٹ کے لئے نگران صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے بطور مہمان خاص شرکت کی، سیکڑوں کی تعداد میں شائقین کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہوئے۔ صدارتی تمغہ امتیاز نعمت اللہ ظہیر نے اس ایونٹ کا انعقاد کیا۔ اس فائنل میں ضلع پشین اور کوئٹہ کی ٹیمیں مدمقابل رہیں، جس میں کوئٹہ کی ٹیم نے ضلع پشین کی ٹیم کو سنسنی خیز مقابلے میں شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔ جان اچکزئی نے ایونٹ سے خطاب کے دوران ضلع کے مخدوش کرکٹ گرائونڈ کو دیکھتے ہوئے ضلع پشین میں بین الاقوامی طرز کی گرائونڈ تعمیر کرنے کا اعلان کیا، جسے عوام نے بھرپور سراہتے ہوئے کہا کہ ہم نگران صوبائی وزیر اور نعمت اللہ ظہیر کا شکریہ ادا کرتے ہے۔
اسی طرح ضلع حب، بولان، کیچ اور قلات میں مختلف فٹبال میچز کا انعقاد ہوا، جہاں 900سے زائد پرجوش شائقین نے شرکت کرتی ہوئے اپنی اپنی ٹیموں کی خوب داد رسی کی۔ ضلع سبی، چاغی، سوراب، حب، پنجگور، بارکھان اور کیچ میں مختلف کرکٹ میچز کا انعقاد کیا گیا جن میں مجموعی طور پر 2000شائقین نے شرکت کرتے ہوئے بلوچستان کی سرزمین کو برجوش نعروں سے لرزا کر رکھ دیا۔ ضلع نصیرآباد میں فٹسال میچ کھیلا گیا، 250کے قریب شائقین میچ سے لطف اندوز ہوئے۔
بلوچستان میں کھیلوں کے ساتھ ساتھ دیگر صحتمندانہ سرگرمیوں کا بھی انعقاد ہوا۔ ضلع کیچ میں کیریئر کی رہنمائی کے لیے سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں مجموعی طور پر 100کے قریب بلوچ نوجوانوں نے حصہ لیا۔ کوئٹہ اور ضلع کیچ میں پشتون کلچر ڈے کی تقریبات منعقد کی گئیں، تقریبات میں 3300سے زائد افراد نے شرکت کی، یہ کلچر ڈے بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں پشتونوں نے منایا، اور ساتھ ہی دیگر اقوام نے اپنے پشتون بھائیوں کے ساتھ ملکر کلچر ڈے منایا جس سے تفریق کی نفی ہوتی ہے۔ ضلع کیچ اور ہرنائی میں اینٹی کرپشن کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ ضلع کیچ میں تصویری نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں 130افراد نے شرکت کرتے ہوئے مصوروں کو خوب سراہا۔ بھارتی انتہاپسندی اور ریاستی دہشتگردی کے خلاف ضلع جعفرآباد، کوہلو اوستا محمد، صحبت پور، نصیر آباد اور ضلع سوئی میں ریلیاں نکالی گئیں، جہاں 1250سے زائد افراد نے شرکت کی۔ مسلح افواج کے بلوچستان کی ترقی میں کردار کو سراہنے کے لیے 2تقریری مقابلے منعقد کیے گئے، جن میں 180طلبا نے شرکت کرتے ہوئے پاک فوج زندہ آباد کے نعرے لگائے۔ عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے بلوچستان بھر کے مختلف اضلاع بشمول لسبیلہ، خضدار، مستونگ، گوادر، حب اور آوران میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں مجموعی طور پر 22550سے زائد افراد شریک ہوئے۔ عید میلاد النبیؐ کی مناسبت سے ضلع ژوب، کیچ، قلع سیف اللہ، پنجگور اور شیرانی میں مختلف پروگرام منعقد کیے گئے جن میں 650سے زائد افراد نے شرکت کی۔ ضلع کیچ میں نوجوانوں کے مستقبل کے لئے کیرئیر کونسلنگ سیشنز کا انعقاد ہوا جن میں 250نوجوانوں نے شرکت کی۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو اس طرح کی مثبت اور صحت مند سرگرمیاں میسر ہونے سے صوبے میں احساس محرومیت قدرے کم ہوتا جا رہا ہے ان سرگرمیوں کی وجہ سے بلوچ نوجوان قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے فعال شہری ثابت ہو رہے ہیں۔ جو کہ صوبے کے لئے انتہائی مفید عمل ہے۔ مگر حکومت کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام وجوہات پر تمام شراکت داروں کے ساتھ مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ ایسے کون سے معاملات ہیں کہ جن سے یہاں کے نوجوانوں کو فائدہ حاصل ہو۔ تمام تر وژن کو پھر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button