CM RizwanColumn

چودھری ریاست زندہ باد

سی ایم رضوان
یہ کائنات عدل کی بنیاد پر تخلیق اور قائم کی گئی ہے۔ زمین و آسمان، عرش و فرش، جنگل، پہاڑ، سمندر، دریا سبھی اسی نظام عدل کے تحت تا حشر قائم ہیں۔ اسی اصول عدل کے تحت دنیا میں موجود انسان سے لے کر تمام مخلوقات کی بقاء ممکن ہے۔ کائنات میں مختلف اشیاء کا یہی توازن ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی نظام عدل کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گرمی سردی، دن رات، ہوا پانی، چرند پرند، فضا میں اور زمین پر مختلف عناصر الغرض سب ایک توازن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ’’ جب سات آسمان اوپر تلے بنائے تو عدل قائم کیا گیا، پس تو رحمان کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا، تو پھر نگاہ دوڑا کیا تجھے کوئی شگاف دکھائی دیتا ہے۔ پھر دوبارہ نگاہ کر، تیسری طرف نگاہ ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہو گی‘‘۔
قرآن کریم نے عدل کا لفظ خالص عربی زبان و ثقافت سے لیا ہے۔ اسلام سے پہلے اور نزول قرآن کے دوران عرب میں بار برداری کے جانور پر دونوں اطراف میں برابر بوجھ کے لادنے کو عدل کہتے تھے اور عرب میں اصولی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب جانور پر دونوں طرف کا سامان برابر کا لدا ہوا ہو تو سفر بہت ہموار اور آسان کٹتا ہے اور اگر بوجھ بوجوہ ایک طرف کم اور دوسری طرف زیادہ ہو تو ظاہر ہے کہ دوران سفر دونوں اطراف کی نا برابری کی بناء پر جانور کو بھی تکلیف ہو گی اور سفر بھی بآسانی نہیں کٹے گا۔ یہی حال ایک انسان کی انفرادی زندگی اور کسی بھی ملک و قوم کی اجتماعی زندگی اور معاملات کا ہے۔ ان تمام معاملات میں توازن اور عدل و انصاف ہو تو زندگی بہت خوشگوار گزرتی ہے لیکن جونہی کسی نظم ریاست میں افراط و تفریط، بے عدلی اور ناانصافی پیدا ہو جائے تو اکثر معاملات بگڑنے لگتے ہیں۔
ہمارے گائوں کے چودھری ریاست نے بھی اپنے طور پر عدل و انصاف اور توازن و تناسب کا ایک پیمانہ، معیار اور طریقہ رائج کر رکھا ہے۔ وہ ایک عرصے میں ایک منشی کو گائوں کے اکثر اپنے سے اضافی اور اپنے لئے غیر ضروری معاملات سونپ دیتا ہے اور اختلاف یا ناپسندیدگی کی بناء پر اکثر اوقات دوسرے عرصے میں دوسرے منشی کو بھی ایسی ہی ذمہ داریاں تفویض کر دیتا ہے لیکن اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے لئے طاقت کے تمام ہتھیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ ایک لحاظ سے تو چودھری ریاست ٹھیک ہی کرتا ہے کہ جب گائوں کی حکومت اور اختیار کا اصل مالک وہ خود ہی ہے تو پھر وہ طاقت کی لگام اپنے ماتحت کسی منشی کے ہاتھ میں کیوں دے۔ بے شک وہ منشی گائوں کے لوگوں کا پسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ گائوں کے لوگوں کی پسند نا پسند پر منشیوں کو بھی پسند نا پسند کرے گا تو کل کلاں کوئی بھی منشی عوامی طاقت کی بناء پر چودھری ریاست کی چھٹی کرا دے گا اس لئے وہ کسی بھی منشی کو بغیر اپنی شرائط منوائے تعینات نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں منشیوں کی بھی ایک روش بڑی فتنہ گر ہے کہ وہ طاقت تو پہلے چودھری ریاست کی آشیرباد اور چاپلوسی سے ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ جاتے ہیں تو طاقت کے نشے میں دھت ہو کر تھوڑا عرصہ بعد ہی چودھری ریاست کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں چودھری ریاست کو ایک نیا منشی لگانا پڑتا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے گائوں میں یہی پٹ سیاپا چل رہا ہے۔ اب تو اس منافقت بھری لڑائی کی اصل صورت کا گائوں کے بچے بچے کو علم ہو گیا ہے مگر اس سب کے باوجود منشی طبقے کی جانب سے چودھری ریاست کی منافقانہ غلامی کا سلسلہ بھی نہیں رک رہا اور چودھری ریاست کی چودھراہٹ کا سورج بھی غروب ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ گائوں میں آئے روز منشیوں کی تقرری، تنزلی اور معطلی کا شور پڑا رہتا ہے اور ہر طرف پنچایتوں اور محفلوں کے علاوہ منشیوں کے چھوٹے چھوٹے کارندوں کی چودھری ریاست کے منظورِ نظر جغادریوں سے ملاقاتیں اور صلاح مشورے جاری رہتے ہیں ان ملاقاتوں، جوڑ توڑ اور خفیہ مشوروں کے وقت سیاسی اخلاقیات اور ماضی کے اپنے ہی پراپیگنڈوں، جھوٹے سچے نعروں اور اپنی جماعتوں کے منشوروں کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔
جس طرح کہ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پی ڈی ایم اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے۔ پی ٹی آئی وفد کی قیادت سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کر رہے تھے۔ وفد نے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ان کی امامت میں نماز مغرب بھی ادا کی، ملاقات ختم ہونے کے بعد اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا مدعا سیاسی نہیں تھا بلکہ ہم مولانا کی ساس کی وفات پر فاتحہ کے لئے آئے تھے۔ ایک صحافی نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ کیا مستقبل میں بھی کسی ایسی ملاقات کا امکان ہے؟ تو پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ یہ کوئی سیاسی ملاقات نہیں تھی بلکہ ہم پختون ہیں ہماری روایت ہے کہ کسی غم کی صورت میں ہم ایک دوسرے کے حال احوال اور فاتحہ کے لئے ضرور جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہم سیاسی لوگ ہیں اگر پی ٹی آئی چیئر مین ہمیں اجازت دیں گے تو ملاقاتیں ضرور ہوں گی۔ ایک اور صحافی نے اسد قیصر سے سوال کیا کہ کیا اس ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی رضا مندی شامل تھی تو اسد قیصر نے کہا کہ یہ ملاقات سیاسی نہیں تھی اس لئے ان کی مرضی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ سابق سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں علی محمد خان، بیرسٹر سیف اور جنید اکبر نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔ بالکل ہمارے گائوں کی طرح پاکستان میں بھی اس وقت چودھری ریاست کی طرف سے لیول پلئینگ فیلڈ کی پالیسی چل رہی ہے، اس نے سابقہ دور میں جس طرح ایک منشی کو نئے منشی کے ہاتھوں ذلیل کروا کر قید میں ڈلوا دیا تھا اور پھر خود ہی اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت دلوا دی تھی۔ بعد ازاں مقامی منشی اپنی اوقات بھول کر چودھریوں کو ہی گالیاں دینے لگا تو چودھریوں نے اب اسے بھی جیل میں ڈلوا دیا ہے اور عدل کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے اب پرانے منشی کی رہائی کا بندوبست شروع کروا دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لوگ فضول ہی کبھی ایک منشی زندہ باد اور کبھی دوسرا منشی زندہ باد کے نعرے لگاتے رہتے ہیں حالانکہ ان کو ایک ہی نعرہ ہمیشہ لگانا چاہیے کہ چودھری ریاست زندہ باد ہمارے گائوں میں تو لوگ اب یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ چودھری ریاست زندہ باد کیونکہ انہیں اب علم ہو گیا ہے کہ منشی تو بے وقعت اور بے طاقت ہوتے ہیں اور چودھری کے چرنوں میں بیٹھ کر ہی اختیار حاصل کرتے ہیں اور چودھری کی مرضی منشا سے ہی آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کی اپنی اصل طاقت کوئی نہیں بلکہ اصل طاقت تو چودھری ریاست کی ہے۔ پاکستان کے لوگ اسی طرح کے جھمیلوں کے باعث اب بھوک سے مرنا شروع ہو گئے ہیں مگر یہ تنازعات اور جوڑ توڑ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اب پاکستان کے لوگوں کو بھی اپنے اصل چودھری ریاست کی حتمی اور غیر متبدل طاقت کو تسلیم کر کے ایک ہی نعرہ لگانا چاہیے کہ چودھری ریاست زندہ باد۔
پاکستانی عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ سابقہ منشیوں کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو تو کیا نیچے لا کر دو سو روپے کے برابر کرنا تھا۔ مہنگائی کا وہ طوفان برپا کر دیا تھا کہ غریب تو غریب سفید پوشوں کو بھی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ پاکستانی عوام اس وقت اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ آخر کھربوں ڈالر کے قرض لے کر پاکستان اپنے وسائل ہونے کے باوجود پائوں پر کھڑا کیوں نہیں ہو رہا۔ اس طرح کے تمام تر سوالوں کا جواب تو ایک ہی ہے کہ منافقت چھوڑ کر سیدھے سادے انداز میں طاقت کے اصل مالکان کی طاقت کو تسلیم کر لیا جائے اور ان سے پوچھ کر ایک وزیراعظم لگا دیا جائے جو ان کی پالیسی کے مطابق پانچ سال کام کرے اور وزارت عظمیٰ کے دیگر امیدواروں کو پانچ سال تک خاموشی، امن اور سکون کے ساتھ انتظار کرنے کا پابند کر دیا جائے اور اگر وہ خاموشی سے گھر نہ بیٹھیں تو سخت ترین جیل میں ڈال دیا جائے تاکہ وہ اور اس کے ہمنوا ملک کے معاملات میں حارج نہ ہوں۔ شاید یہی سوچ کر اسد قیصر اور ہمنوا گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان سے ملے ہیں اور شاید بات چیت بھی یہی ہوئی ہے کہ وہ اصل مالکان سے ان کی سفارش کر دیں لیکن مولانا نے بھی ان سے ڈیزل ڈیزل کی باتیں اس قدر زیادہ سنی ہیں اور ان کی نفرت کا اتنا سامنا کیا ہے کہ وہ سفارش کی بجائے اس ملاقات کو کیش کرانے کا کوئی طریقہ کار اختیار کریں گے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ فی الحال تو یہی کہنا مناسب ہے کہ چودھری ریاست زندہ باد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button