Columnمحمد مبشر انوار

خوف

محمد مبشر انوار( ریاض)
غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کی کل کائنات رقبہ کے لحاظ سے فقط چھ سے بارہ کلومیٹر کا علاقہ ہے کہ جس میں تقریبا بیس لاکھ شہری رہائش پذیر ہیں جبکہ ان بیس لاکھ شہریوں کے گرد اسرائیل نے ایک چھ/سات میٹر بلند دیوار تعمیر کر رکھی ہے، جس پر شنید ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات بھی کر رکھے ہیں تا کہ غزہ کے مجاہدین اسرائیل پر حملے نہ کر سکیں۔ غزہ کی اس پٹی کے دو اطراف اسرائیل اپنی تمام تر ظلم و بربریت و ریاستی دہشت گردی کے ساتھ فروکش ہے تو تیسری طرف مصر کا صحرائے سینا ہے جبکہ چوتھی جانب بحر بیکراں سمندر ہی، غزہ کے شہری اس چھوٹے سے علاقے میں بھی کس طرح زندگی گزار رہے ہیں، یہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے، جس پر انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار اپنی منافقت کو آشکار کر رہے ہیں۔ اس منافقانہ کردار کے باوجود حیرت اس امر پر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی انسانیت یا انسانی حقوق کی رتی برابر پروا ان فلسطینیوں کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے محبوسوں کے لئے بیدار ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ دونوں غاصب ممالک کو ایک طرح سے انسانیت اور مسلم کشی کا لائسنس دیا جا چکا ہے اور عالمی قوانین کے مطابق یہاں کے آزادی پسندوں کی حیثیت ہی اپنی مرضی و منشا کے عین مطابق تبدیل کی جا چکی ہے، ان حریت پسندوں /آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ امن عالم کی یقینی بنانے کے لئے بجائے ان مجاہدین آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے منصفانہ طریقے سے ان کو الگ آزاد ریاست دینے کی بجائے، مظلوموں کو ظالم ثابت کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل، غیر مسلم عالمی برادری ان کی نسل کشی پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ویسٹ بنک میں رہائش پذیر فلسطینی ہیں، جو قدرے محفوظ تصور کئے جاتے ہیں کہ وہاں نسبتا رہائش کے لئے بہتر مواقع موجود ہیں لیکن غزہ کے مسلمان کسی بھی صورت اسرائیلی تسلط کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور مسلسل اپنا حق آزادی حاصل کرنے کے لئے میدان میں برسرپیکار ہیں۔فلسطینی جدوجہد آزادی کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے اور کئی نشیب وفراز سے مزین نظر آتی ہے تاہم اس عرصہ میں فلسطینی مجاہدین مسلسل روبہ عمل رہے ہیں اور کسی ایک لمحہ بھی اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے، ان کی یہ جہد مسلسل ایک طرف اسرائیل کے لئے دردسر ہے تو دوسری طرف اسرائیل کے پشت پناہوں کو بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ہر طرف سے محبوس ان فلسطینی مجاہدین نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے، اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے کی قیمت سے بخوبی آشنا، یہ مجاہدین ہر صورت اپنی الگ ریاست چاہتے ہیں، گو کہ دو ریاستی فارمولا بنیادی طور پر حقائق کے منافی ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں جبرا آباد کیا گیا تھا، اسرائیلی ریاست کا قیام بھی جبری تھا لیکن اس سب کے باوجود لمحہ موجود میں فلسطینی اس وقت ایک الگ ریاست کے طلبگار ہیں جبکہ اسرائیل ان مجاہدین کو سمندر میں غرقاب کرنے کے درپے ہے۔
سرکار دو عالم محمد مصطفیٰ ؐکا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اس کے ایک حصے کی تکلیف سارا جسم محسوس کرتا ہے، اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ دنیا کی ایک چوتھائی مسلمانوں کی آبادی، مل کر فلسطین کے مسلمانوں کو اس تکلیف سے نجات دلا دیتی لیکن افسوس کہ اٹھاون مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کا سارا زور اس وقت اس بات پر ہے کہ کسی طرح اسرائیل جنگ بندی کرے۔ موجودہ حالات میں مسلم حکمرانوں کی اس کوشش و کاوش کی بھی ستائش ہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح کے حالات مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کے ہیں، ان کی طرف جنگ بندی کا یہ مطالبہ بھی کم نہیں کہ کوئی ایک ایسی مسلم ریاست نہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے عالمی طاقتوں کے دبائو سے محفوظ ہو۔ دوسری طرف ایسی کون سی مسلم ریاست ہے جو واقعتا امریکی صدر کے ببانگ دہل اعلان کہ وہ اسرائیل کو کسی قیمت پر تنہا نہیں چھوڑیں گے، اسرائیل کے مقابل باضابطہ کھڑی ہو سکتی ہے یا جنگ کا اعلان کر سکتی ہے؟ بیشتر مسلم ریاستیں نہ صرف اپنے دفاع بلکہ بہت حد تک اپنے اقتدار کے لئے بھی امریکی آشیرباد پر انحصار کرتی ہیں کہ امریکی آشیرباد کے بغیر ان کا اقتدار قائم رہنا ہی ممکن نہیں، جس کی ایک واضح مثال پاکستان میں رجیم چینج آپریشن ہے۔ رہی بات دفاع کی تو کتنی ایسی مسلم ریاستیں ہیں، جو اپنے دفاع میں کسی عالمی طاقت پر انحصار کئے بغیر کر سکتی ہیں؟ امریکہ کی سب سے بڑی صنعت ہی اسلحہ کی ہے اور اس کی معیشت کا بڑا انحصار اسلحہ سازی اور اس کی فروخت پر ہے، امریکہ کا بیشتر اسلحہ ہمیں اسلامی ریاستوں کے پاس ملتا ہے جسے امریکہ کسی حد تک اپنے اور اپنے اتحادیوں کے لئے ناقابل استعمال سمجھتے ہوئے، ان اسلامی ریاستوں کو فروخت کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس فروخت شدہ اسلحہ سے بہتر ٹیکنالوجی کا حامل اسلحہ اپنے دفاع میں شامل کرنے کے بعد، متروک شدہ اسلحہ اسلامی ریاستوں کو فروخت کیا جاتا ہے جبکہ شنید یہ ہے کہ اس متروک شدہ اسلحہ کی ٹیکنالوجی فروخت کے باوجود امریکہ کے پاس ہی رہتی ہے، جب چاہے اس اسلحہ کو بے عمل کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں حقیقت یہی ہے کہ براہ راست جنگ میں کودنا اگر دانشمندی نہیں تو اپنی دفاعی صلاحیت کو غیر مسلموں کے مقابل نہ بڑھانا سخت ترین بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔
علاوہ ازیں! اس پس منظر میں اہم ترین حقیقت سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ 1967ء کی جنگ عرب اسرائیل جنگ میں، جہاں عرب ریاستیں متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف برسرپیکار آئیں تھیں، اور نتیجہ نہ صرف یہ کہ عرب ریاستوں کی شکست پر منتج ہوا تھا بلکہ اسرائیل نے اپنی جغرافیائی حیثیت میں من مانی تبدیلی کر لی تھی۔ عالمی طاقتوں کا وزن اس وقت بھی اسرائیل کی حمایت میں گیا تھا اور مفتوحہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا نہ صرف حصہ تسلیم کیا گیا تھا بلکہ عرب ریاستوں سے تسلیم بھی کروایا گیا تھا۔ بعد ازاں جیسے اسرائیل کو یہ حق فائق مل گیا کہ وہ جیسے چاہے، جہاں چاہے، فلسطینیوں کو نہ صرف ان کے علاقوں سے بے دخل کر سکتا ہے بلکہ مسلسل اپنی جغرافیائی حدود کو وسعت دینے کا اختیار کلی بھی اسرائیل کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے حاصل ہے۔ فلسطینیوں کی ایک بڑی شہری آبادی کو، غزہ کے چھوٹے سے حصے محبوس کر کے بھی اسرائیل کی تسکین نہیں ہو رہی، اسے فلسطینی مسلمانوں کا وجود اس چھوٹے سے رقبے پر بھی گوارا نہیں اور وہ اپنے ناممکمل ایجنڈے پر ہر صورت عملدرآمد کروانے کے لئے بے قرار نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو/تین ہفتوں کے دوران ہی اسرائیل نے حماس کی گئی کارروائیوں کے رد عمل میں غزہ میں قیامت بپا کر رکھی ہے، شہری آبادی، سکول، عبادت گاہیں یا ہسپتال تک اس کی ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ،یہ ساری جارحیت اسرائیل فضائی حملوں میں کر رہا ہے ،اس کو زمینی کارروائی سے مسلسل روکا جا رہا ہے لیکن فضائی حملوں کی تباہ کاریوں پر صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں، جو در پردہ حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔
حماس کے قبضہ میں اسرائیلی و امریکی و دیگر قومیتیوں کے زیر حراست افراد میں جنہیں حماس رہا کر رہی ہے، ان کے مطابق حماس کا ان کے ساتھ سلوک انتہائی مشفقانہ ہے، جسے نہ صرف اسرائیل بلکہ کسی بھی دوسری عالمی طاقت کے لئے شرمندگی کا باعث ہے کہ میڈیا میں اسرائیل و امریکہ و دیگر مجاہدین کو درندوں کی طرح ظاہر کرواتے ہیں، جبکہ رہائی پانے والے افراد کے بیانات ان کے جھوٹ کا پول سر بازار کھولتے نظر آتے ہیں۔ بہرکیف حقیقت یہی ہے کہ ماضی میں جنگ کے تلخ نتائج عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم ممالک کے لئے بھی سوہان روح ہیں اور انہیں یہ خطرات لاحق نظر آتے ہیں کہ اگر وہ اس جنگ میں براہ راست کود پڑے تو کہیں اسرائیل امریکہ وہ دیگر کی بل بوتے پر، اپنی جغرافیائی حدوں کو مزید وسعت دینے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اگر اسرائیل ایسی کسی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے تو عربوں کے لئے اپنے مفتوحہ علاقے کا حصول ممکن نہیں رہے گا کہ عالمی طاقتیں کسی بھی صورت اسرائیلی مفادات کے خلاف نہیں جا سکتی بہرطور یہ تمام تر حالات و واقعات مرگ مفاجات کی کہانی سنا رہی ہیں کہ مسلم ریاستوں نی ایک معرکہ میں شکست کے بعد بھی اپنے دفاع کو مضبوط نہیں کیا بلکہ دوسروں پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ بے شک مسلمان آبادی میں کہیں زیادہ ہیں لیکن سرکار دو عالم ؐ کے قول کے مطابق، دشمن انہیں بھیڑ بکریوں کی صورت ہانکیں گے، یہی اس وقت ہو رہا ہے کہ ذاتی نفع و نقصان کی خوف میں مسلمان ایک امت کی شکل میں موجود نہیں اور اپنے مسلم بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف متحد ہونے سے قاصر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button