ColumnNasir Naqvi

پنڈی بوائے کا چلہ

ناصر نقوی
سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ وطن عزیز میں الیکشن کا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ’’ نائن مئی‘‘ کے اثرات ابھی بھی نمایاں اس لیے ہیں کہ مصلحت پسندی یا ذمہ داری میں مہینوں گزرنے کے باوجود کسی ملزم کو مجرم قرار دے کر سزا نہیں مل سکی۔ پھر بھی یہ بات اہم ہے کہ بڑے اور اہم قومی ادارے نے سب سے پہلے اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف ایسی کارروائی کر دکھائی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سیاسی حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں جو تبدیلی کی نوید سناتے ہوئے ترقی و مثالی انصاف کی بات کے لیے سرگرداں تھے وہ ناکامی کا سامنا کر کے مایوس ہو گئے اور نجات دہندہ و تبدیلی کا مسیحا جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہو گیا۔ یقینا تحریک انصاف اور عمران خان ایک تیسری سیاسی طاقت بن کر ابھرے لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ عوامی حمایت سے نہیں ابھری بلکہ انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ابھارا گیا، الیکشن 2018ء میں سادہ اکثریت بھی نہیں ملی لیکن طاقت ور مقتدرہ نے دو پارٹی سسٹم سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اشاروں ہی اشاروں میں مطلوبہ تعداد پوری کر کے سامنے لاکھڑا کیا، چونکہ پس پردہ آہنی ہاتھ کارفرما تھے اس لیے خان اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی ’’ احتساب‘‘ کے نام پر رنگ جمایا۔ ’’ تبدیلی‘‘ کے نعرے پر قوم نے برداشت کیا اور سیاسی قوتوں نے اندازہ کر لیا کہ یہ غیر فطری حکومت زیادہ پائیدار نہیں ہو گی لہٰذا ’’ صبر، انتظار اور دیکھو‘‘ کی پالیسی اپنائی گئی۔ حضرت مولانا فضل الرحمان الیکشن ہار گئے یا ہرا دئیے گئے اس لیے غصّے میں ’’ لانگ مارچ‘‘ پر اتر آئے۔ انہوں نے اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے عمران خان کو منتخب کی بجائے سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیا۔ باقی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی لیکن جب مولانا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انہوں نے اسمبلیوں سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا جسے پذیرائی بالکل نہیں ملی بلکہ سابق مفاہمتی صدر پاکستان آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد کا مشورہ دے دیا اس بھی قبولیت نہیں ملی کیونکہ سب جانتے تھے کہ جن طاقتوروں نے پہلے زرداری کو تحریک عدم اعتماد کا مشورہ دے دیا اسے بھی قبولیت نہیں ملی کیونکہ سب جانتے تھے کہ جن طاقتوروں نے پہلے تعداد پوری کر لی ہے وہ پھر واردات ڈال دیں گے اور تحریک عدم اعتماد نہ صرف ناکام ہو گی بلکہ عمران خان حکومت کے لیے نئی آکسیجن مل جائے گی اس لیے ایک بار پھر ’’ انتظار اور دیکھو‘‘ کا فارمولا اپنایا گیا۔ مقصد صرف یہی تھا کہ تمام پہلوئوں پر غوروفکر کر کے حکومتی ناکامی پر ذمہ داروں کو قائل کیا جائے ایسے میں پنڈی بوائے سابق وفاقی وزیر ریلوے اور داخلہ شیخ رشید ہر جگہ ہر موقعے پر اپنی ولولہ انگیز خطاب میں چیلنج کرتے رہے کہ آئندہ پندرہ، بیس سال کے لیے اپوزیشن جماعتیں اقتدار بھول جائیں۔ انہیں بالکل یاد نہیں رہا کہ سیاسی رسم و رواج میں ہمیشہ کے لیے کچھ نہیں ہوتا، حالانکہ زبردستی کے صدر پرویز مشرف کے دور میں نہ صرف وہ کابینہ کے اہم رکن تھے بلکہ جانتے تھے کہ چودھری برادران دس مرتبہ بھی وردی میں صدر منتخب کرنے لیے پرویز مشرف کے ساتھ ہیں پھر کیا کچھ ہوا؟ مشرف نے اقتدار کیوں اور کیسے چھوڑا؟ یہ ساری کہانی بھی ان کی آنکھوں دیکھی تھی پھر دعویٰ مستقل اقتدار کا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ گیٹ نمبر 4کے دعویدار رہے بلکہ اکثر تو ان کے ترجمان بننے کی بھی خبریں دیتے رہے لیکن وقت بڑا ظالم ہے کبھی ایک سا نہیں رہتا، سیاسی حالات بدلے، وفاداریاں بھی بدل گئیں، کس نے کیا کیا؟ غلطی کس کی تھی، سازش ہوئی کہ تبدیلی منطقی تھی اس سے قطع نظر وہ کچھ ہو گیا جس کی توقعات نہ عمران خان کو تھی اور نہ ہی شیخ رشید کو، آصف زرداری کا فارمولا اور پس پردہ کوششیں کامیاب ہوئیں عمرانی اکثریت، اقلیت ہوتی گئی اور اتحادی حکومت بن گئی۔ خان اعظم نے چیخ و پکار کی لیکن ذمہ داروں نے ایک نہ سنی، انہیں پس پردہ تعلقات، سرپرستی، وعدوں اور خواہشات کی تکمیل پر بڑا مان تھا لیکن اْن کے تجزیے اور مشاہدے میں یہ بات نہیں تھی کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی پورا منظر بدل جاتا ہے بس اسی غلط فہمی میں شیخ صاحب بھی مارے گئے، پہلے گیٹ نمبر 4بند ہوا پھر عمران خان کے نادان اور قریبی دوستوں نے ’’ بنی گالہ‘‘ کے دروازے بھی ان پر بند کرا دئیے۔ دوسری جانب عاقبت نہ اندیشوں نے عمرانی قصیدوں کی مدد سے خان اعظم کو ریاست سے ٹکرا دیا۔ نتیجتاً اپنے بھی پرائے ہو گئے جو بچا وہ ’’ نائن مئی‘‘ کے کھاتے میں برباد ہو گیا۔ خان کے قریبی ساتھی حالات کا سامنا نہیں کر سکے۔ وفاداری کا دم بھرنے والے روپوش ہو گئے جو ہر اول دستہ تھے پکڑے گئے اور عمران خان توشہ خانہ و اثاثے چھپانے پر نااہل اور گرفتار ہو گئے لیکن اب ’’ سائفر کیس‘‘ گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے القادر ٹرسٹ ، عدت سے پہلے شادی اور 9مئی کے مقدمات کافی ہیں اس لیے کہ ’’ نائن مئی‘‘ کے مقدمات میں ایسی دفعات بھی شامل کر دی گئی ہیں جن کے تحت مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلے گا اور سزا کم از کم عمر قید اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت ہے۔
تحریک انصاف کے اتحادی ایک ایک کر کے عمران خان کو چھوڑ گئے اس لیے کہ وہ اشاروں کی زبان جانتے تھے لیکن ’’ ڈیوٹی فل‘‘ شیخ رشید اصلی اور نسلی ہونے کے ناطے قبر کی دیواروں تک دوستی نبھانے کے دعویدار رہے پھر بھی وہ وقت آ گیا کہ انہیں بھی پہلے روپوش ہونا پڑا اور بعد میں ایک روایتی انٹرویو وقت کی ضرورت سمجھ کر ریکارڈ کرانا پڑا، اس کے لیے انہوں نے ایک نجی ٹی وی کے اینکر منیب فاروق کا انتخاب کیا جبکہ مقام ان کے اس بھتیجے شیخ راشد کا تھا جس نے عدالت میں ان کی بازیابی کے لیے مقدمہ کر رکھا تھا اور انٹرویو کی خصویت یہ بھی ہے کہ یہ اسی روز ریکارڈ کیا گیا جس روز عدالت نے آئی جی پولیس کو شیخ صاحب کی بازیابی نہ کرانے پر جھاڑ پلائی، یعنی چراغ تلے اندھیرا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ صاحب دوسرے گمشدہ افراد کے مقابلے میں تندرست و توانا ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ چالیس روزہ چلہ کاٹ کر واپس اس لیے آئے ہیں کہ اب ان کی رہنمائی ہو گئی ہے کہ انہیں مستقبل میں کیا کرنا ہے۔ ان کے لہجے میں ماضی جیسی گرج اور گفتگو میں للکار نہیں تھی جس کا جواز انہوں نے یہ بتا دیا کہ وہ 72سال کے ہو گئے ہیں انہوں نے عمرانی حکومت کی اجتماعی غلطیوں کی نشاندہی کی لیکن عمران خان اور بشری بی بی کو بالکل تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ ان کا کہنا اب بھی یہی ہے کہ ’’ اصلی ہوں نسلی ہوں‘‘ فوج اور قومی اداروں کا ہمیشہ وفادار رہا ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا۔ میں سیاست کبھی نہیں چھوڑوں گا نہ ہی شیخ راشد کو کوئی مشورہ دوں گا وہ سیاست میں اپنی من مرضی کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔ میں نے ’’ سائفر‘‘ اور اداروں سے نہ ٹکرانے کا مشورہ دیا تا لیکن ان کے قریبی نادان دوستوں زلفی بخاری، شاہ محمود قریشی، شہباز گل، شیریں مزاری اور دیگر نے عمران خان کے کان بھرے اور مجھے دوری اختیار کرنا پڑی ۔ ورنہ عمران اور تحریک انصاف کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مجھے گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے ’’ چلہ‘‘ کاٹا، یہ چالیس روز خاصے مشکل تھے، اس سے میری صحت اور طبیعت پر یقینا اثرات ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 40روز میں نے قرآن بھی پڑھا۔ تاہم ان کا عزم ہے کہ وہ اب بھی الیکشن پی ڈی ایم کے خلاف لڑیں گے۔ انٹرویو شیخ صاحب کے بقول ان کی مرضی سے ان کے مرضی کے اینکر نے کیا پھر بھی ’’ سوالات گندم اور جواب چنا‘‘ والا مسئلہ نمایاں تھا۔ زور اس بات پر تھا کہ فوج کے ساتھ ہمیشہ رہا اور آئندہ بھی رہوں گا۔ عمران خان کو بھی ٹکرانے اور الجھنے سے منع کیا۔ سیاستدانوں کے لیے بھی یہی مشورہ ہے فوج اور قومی ادارے اپنے ہیں ان سے لڑائی نہ کریں۔ انہوں نے زبردستی یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’ 40روزہ چلہ‘‘ انہوں نے اپنی مرضی سے کاٹا، کسی نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ مجھے نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن 40روزہ چلہ تھا مشکل؟ پھر بھی خوش اسلوبی سے گزر گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ تین آدمی جو فوج سے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کر رہے تھے انہوں نے راہ ہموار کر کے اپنا راستہ بنا لیا لہٰذا اپنی جماعت بنا لی، چیئرمین پی ٹی آئی ضدی انسان ہیں انہیں جنرل عاصم منیر کو نہیں چھیڑنا چاہیے تھا لیکن خان کے دوستوں کا خیال تھا کہ عمران کے موقف پر فوج کے اندر سے انہیں حمایت ملے گی۔ کارکنوں کو بھی اسی امید پر انقلاب کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ میرے خیال میں سیاستدانوںاور سیاسی پارٹیوں کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی بجائے مل جل کر اجتماعی مفادات میں کام کرنا چاہیے۔72سالہ پنڈی بوائے کا کہنا تھا 9مئی کے کو جو ہوا غلط ہوا۔ میں اس وقت ملک سے باہر تھا۔10مئی کو میں نے مذمتی بیان جاری کر دیا تھا جسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ میرے خلاف صرف ’’ ٹویٹس‘‘ کے مقدمے ہیں، میں نے کوئی بڑا جرم نہیں کیا؟
’’ پنڈی بوائے کا چلہ‘‘ بقول ان کے کامیاب رہا، نتائج اور شیخ صاحب کی گفتگو بھی اس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ ان کے من مرضی کا ’’ چلہ‘‘ بہت سی خصوصیات کا مالک تھا۔ اب شیخ رشید احمد بدلے بدلے سرکار لگ رہے تھے۔ للکار، دعوے اور جلائو گھیرائو جیسے ماضی کے نعرے دور دور دکھائی نہیں دئیے یعنی 40روزہ چلہ ’’ سافٹ ویئر اَپ ڈیٹ‘‘ کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ مجھے اس انٹرویو کی ایڈوانس اطلاع تھی لیکن میرا خیال تھا کہ شیخ صاحب انٹرویو کی بجائے ’’ دھماکہ خیز‘‘ پریس کانفرنس کریں گے کیونکہ میڈیا میں کھیلنے کی پرانی عادت ہے ۔ انہیں ٹی وی سکرین اور اخبارات کی شہ سرخی بننے کے گْر آتے ہیں لیکن پنڈی بوائے کا 40روزہ چلہ انہیں بہت کچھ سمجھا گیا کہ ان حالات میں ’’ پریس کانفرنس‘‘ بات کا بتنگڑ بنا سکتی ہے اس لیے اپنے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’ انٹرویو‘‘ کو مناسب سمجھا۔ منیب فاروق نے آڑے ترچھے مختلف انداز میں بہت سے سوال کئے لیکن پنڈی بوائے اور چلے کی برکت سے بات نہیں بن سکی۔ اس انٹرویو میں بہت کچھ معلوم ہو سکتا تھا جو نہیں ہو سکا۔ ’’ انٹرویو‘‘ شیخ رشید کی روایات کے برعکس محتاط و بناسپتی ہی رہا۔ انہوں نے مستقبل کی امید نہیں دلائی۔ ایک مرتبہ پھر اپنے یار عمران خان سے روابط بحال رکھنے کی کامیاب پالیسی اختیار کی۔ سب کچھ کہا اور کچھ بھی نہیں کہا، نہ کوئی نیا الزام لگایا اور نہ ہی کرپشن کی بات کی بلکہ بشریٰ بی بی اور تحریک انصاف کے مستقبل تک کی بات نہیں بھی نہیں کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button