ColumnTajamul Hussain Hashmi

9 نکات اور نوازشریف

تجمل حسین ہاشمی
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے چار سال بعد وطن واپسی پر مینار پاکستان گرائونڈ میں جلسے سے خطاب میں ملک کو بحرانوں اور عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے نجات دلانے کیلئے مندرجہ ذیل 9 نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ نمبر ایک، سرکاری اور انتظامی اخراجات میں کمی۔ نمبر دو، آمدنی/محصولات میں اضافہ/ٹیکس کے نظام میں بنیادی اصلاحات۔ نمبر تین، برآمدات میں اضافے کیلئے فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدام۔ نمبر چار، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب۔ نمبر پانچ، توانائی (بجلی گیس) کی قیمتیں کم کرنا۔ نمبر چھ، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی انتظام کاری۔ نمبر سات، نوجوانوں اور خواتین کیلئے روزگار کے مواقع۔ نمبر آٹھ، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انقلاب اور آخر میں نظام عدل و انصاف میں اصلاحات۔ ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف ان نکات کی عمل داری کو کیسے ممکن بنائیں گے جبکہ الیکشن ہونا ابھی باقی ہیں، قوم 17ماہ کی اتحادی حکومت کی کارکردگی دیکھ چکی ہے۔ وفاق میں حکومت بنانے کیلئے سیٹوں کی ضرورت ہوگی، کیا ایسے حالات میں میاں نوازشریف دو تہائی اکثریت دوبارہ حاصل کر لیں گے یا پھر جوڑتوڑ سے کام چلایا جائیگا؟ ماضی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن ان 9نکات پر ایک فیصد بھی مستقل بہتری نہیں رہی۔ اگر منصوبوں میں مضبوطی ہوتی تو کسی کے ساڑھے تین سال کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ حقیقت میں ملک کی مضبوطی کے نہیں ذاتی بزنس کی مضبوطی کے فیصلے کئے گئے۔ مضبوط معاشی پلاننگ اور ترقی قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں نظر آئی جو کہ 1970کے بعد جمہوریت کی نذر ہوگئی۔ نواز شریف جادو کی چھڑی سے 40سال کے مسائل کو کیسے حل کر لیں گے، جو مسائل خود ان کے پیدا کردہ ہیں۔ ایک سو بائیس دورے اور 400دن سے زیادہ ملک سے باہر رہ کر بھی ملک کی معاشی بنیادوں کو مضبوط نہیں کر سکے۔ ایکسپورٹ آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ چند دن میں سٹاک ایکسچینج میں بہتری پر خوشیاں منانے والے غریبوں کی طرف نہیں دیکھ رہے، جو روٹی کیلئے ترس رہے ہیں۔ نواز دور میں غیر ملکی دوروں پر سرکاری اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور نتیجہ صفر۔ اربوں روپے خرچ کرنے والے کیسے معاشی تبدیلی لا سکیں گے؟ دونوں دفعہ مسلم ممالک کی سپورٹ ہی آسانی دیتی ہے۔ 2013سے2017تک کی ترقی کو بنیاد بناکر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ نوازشریف ہی ترقی کی علامت ہے، قوم کو ایسا بیانیہ دیا جارہا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر نواز شریف ترقی کی علامت ہوتا تو دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد قوم باہر نہ جانے دیتی بلکہ ساتھ کھڑی ہوتی۔ جلسہ لاہور میں لوگوں کی آمد اور پولنگ اسٹیشنوں کے فیصلے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اب بیانوں سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ میں نے میاں نوازشریف کو کہا ہے کہ اس دفعہ الیکشن بہت مختلف ہوں گے۔ آٹا، چینی سستا کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ پی ٹی آئی نے بھی قوم کو ایسے بیانیے کے پیچھے لگایا جس کا انجام واضح ہوگیا۔ سہیل وڑائچ کی کتاب "غدار کون "صفحہ نمبر 209میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جن الفاظ میں ذکر کیا وہ غور طلب ہیں، سیاست دانوں کو عوام کی خدمات کرنی چاہئے اور ریاستی اداروں کو ساتھ ملا کر پالیسی بنا کر پاکستان کا مستقبل مضبوط بنانا چاہئے۔ ’’میں‘‘ اور ’’میری سیاست‘‘ سے باہر آنا پڑے گا۔ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو پوری مسلم امہ کی امید ہے، پاکستان عام ملک نہیں، یہ خاص ریاست ہے، قوم کو سیاست دانوں کے بیانات پر غور نہیں کرنا چاہئے، پاکستان پوری دنیا میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ پاکستان مسلم امہ کا رہبر ہے، مسلم لیگ (ن) کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہے لیکن سینئر صحافی رئوف کلاسرا بھی اس بات پر روشنی ڈالتے نظر آئے کہ میاں نوازشریف دو دفعہ ملک سے باہر گئے یا بھیجے گئے، اس کے بعد واپسی پر ان کو دو تہائی اکثریت ملی اور اب دوبارہ وہ واپس آ چکے ہیں اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی ہوگی، مریم بی بی نے بھی کہا تھا کہ Imran khan is done and duste. مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کیخلاف مقدمات قائم کئے گئے، مارشل لا، جیل اور کئی سخت حالات، مرحلوں
سے گزارنے کے بعد دوبارہ اسی مقام پر کھڑا کیا جاتا رہا، نوازشریف کے پاس ایسا کون سا ہتھیار، جادو ہے، کیا مسلم لیگ (ن) کا یہ آخری موقع ہوگا۔ اس جادو کو سمجھنے کیلئے ریاستی پالیسی کو سمجھنا ہوگا۔ پاکستان میں فیصلہ کن حلقوں کو دو طرح کے پریشر کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے، ان دونوں پریشر کا تعلق انٹرنیشنل ہے، ایک طرف مسلم ریاستیں ہیں اور دوسرے ترقی یافتہ سپر پاور ممالک ہیں جو پاکستانی سیاست، معاشی صورت حال پر اثر انداز ہیں، نوازشریف نے ہمیشہ مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط رکھا اور دوسرا نواز فیملی ایک کاروباری فیملی ہے اور ظاہر ہے ان کے تعلقات دنیا کے ساتھ مضبوط ہی ہوں گے، جو ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کی سٹریٹجی پاکستان کی سیاست سے بہت مختلف تھی جس کی وجہ سے آج ان کی پارٹی عتاب میں ہے، پاکستان میں جمہوریت ضرور ہے لیکن پاکستان کی سرحدی حیثیت اور پالیسی میکر کا انداز کافی مختلف ہے، سوال یہ ہے پاکستان میں ایسے فیصلے کیوں ہوتے ہیں جن سے عدل و انصاف کمزور نظر آتا ہے، اس کا جواب انتہائی سادہ اور سیدھا ہے کہ پاکستان ایسی ریاست ہے جو دنیا میں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے، ریاست کے فیصلوں اور اس کی سلامتی، مضبوطی کیلئے بہت ساری جگہوں پر بڑے نقصان سے بچنے کیلئے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جاتا ہے، پاکستان کئی دہائیوں سے ایسے نقصان برداشت کرتا آرہا ہے، سیاست دانوں نے جمہوری عوامی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی، کوئی سول ادارہ خود کفیل نہیں بن سکا، جمہوری جماعتوں نے عوام کو ملکی جی ڈی پی میں شامل نہیں کیا، فرد کو کبھی ترجیح نہیں دی، ملک میں جتھوں کو پروان چڑھایا، اس کا نتیجہ استحصال اور مہنگائی کی شکل میں نظر آیا، پاکستان کی اہمیت اور اس کی سالمیت کے برخلاف فیصلے کئے گئے، بیرونی طاقتوں کو خوش رکھا گیا لیکن ملکی معیشت پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا، آج دوبارہ معاشی بحالی کا نعرہ مارکیٹ کیا جارہا ہے، جب ایم پی اے، ایم این اے کو بندے لانے کا ٹاسک دیا جائیگا تو پھر کیسے انصاف ممکن ہوگا؟ لیکن اس دفعہ گزارش ہے کہ ایسی معاشی بحالی کی جائے جہاں فرد شاد ہو، یہ کام ہونیوالے الیکشن کی فاتح یاب پارٹی کے ذمہ ہوگا۔ میاں نواز شریف اس وقت سینئر سیاست دان ہیں اور گرائونڈ میں وہ موجود ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button