ColumnImtiaz Aasi

مسلم لیگ کا جلسہ، نواز شریف کی نئی حکمت عملی

امتیاز عاصی
مسلم لیگ نون نے مینا ر پاکستان کی جلسہ گاہ لاکھوں افراد سے بھرنے کے لئے نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگایا بلکہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ایک لاکھ افراد جمع کرنے میں ناکام رہی۔ بعض اخبارات نے سرکاری ایجنسیوں کے حوالے سے شرکا کی تعداد ستر سے اسی ہزار بتائی ہے، گویا مسلم لیگ چوبیس کروڑ کی آبادی سے صرف چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئی۔ موجودہ حالات کے تناظر کے سے دیکھا جائے تو عوام سیاسی جماعتوں کے جلسوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہیں جس کا اندازہ پی ایم ایل کو پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر اور نواز شریف کی ہونہار بیٹی عوام کو جلسے میں شرکت کی رغبت دلانے کی خاطر بار بار اس بات کا اعلان کر رہی تھیں نواز شریف ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا نسخہ ساتھ لارہے ہیں جس کا مقصد کسی طریقہ سے مینا ر پاکستان کی جلسہ گاہ کو بھرنا مقصود تھا۔ نواز شریف وقفے وقفے سے اپنے بیانیے بدلنے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ وطن واپس آنے کے بعد جلسہ میں ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے تمام ریاستی اداروں سے مل کر چلنے کے جس عزم کا اظہار کیا وہ اس امر کا غماز ہے وہ مستقبل قریب میں اداروں سے ٹکرائو کی سیاست سے گریز کریں گے۔ جہاں تک وطن عزیز کو معاشی بحران سے نکالنے کی بات ہے میاں نواز شریف نے ٹیکس اصلاحات ، ملکی برآمدات میں اضافے، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی اور سرکاری اداروں کی انتظام کاری کا اعلان کیا ہے۔ سوال ہے کیا عمران خان کے دور میں ملکی برآمدات میں اضافہ اور لاکھوں افراد کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا گیا بلکہ ملکی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس کا تذکرہ نواز شریف نے نہ جانے کیوں کرنے سے گریز کیا۔ میاں نواز شریف کا کسی سے انتقام نہ لینے کا اعلان قابل تعریف ہے۔ سیاست دان ماضی میں انتقامی سیاست سے گریز کرتے تو ہمارا ملک بحرانوں سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصدق نواز شریف نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقامی سیاست سے دور رہنے کا جو عندیہ دیا ہے اس سے امید کی جا سکتی ہے آنے والے وقتوں میں سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے سے دور رہیں گے۔ تعجب ہے ایک طرف مسلم لیگی اپنے قائد کی عوام میں مقبولیت کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف ایک اردو معاصر کی خبر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے نواز شریف نے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کی انتخابات موخر کرنے کی دبے لفظوں میں تائید کی ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے نواز شریف الیکشن میں اپنی جماعت کی کامیابی کے سلسلی میں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ مینار پاکستان کے جلسے سے ایک روز قبل اخبارات کے پہلے صفحات پر مسلم لیگ کے قائد کی تصاویر اور لیڈ سٹوری سے یہ بات واضح ہے مسلم لیگ نون نے جلسہ کے انتظامات اور اس کی تشہیر پر اربوں روپے خر چ کئے ہیں۔ گو عمران خان سیاسی اکھاڑے میں نواز شریف کے مقابلے میں طفل مکتب ہیں تاہم خان نے سیاسی رہنمائوں کے اقتدار کے دوران مبینہ کرپشن کے جو پول کھولے ہیں اس سے عوام سیاسی جماعتوں سے بدظن ہو چکے ہیں۔ جن سیاست دانوں کے خلاف پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے دور میں مقدمات قائم ہوئے وہ اپنے خلاف مقدمات کی سماعت کے بعد عدالتوں سے بریت لیتے تو عوام کی نظروں میں راست باز ٹھہراتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہا ں یہ روایت رہی ہے جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے یا تو انہوں نے این آر او لے لیا یا پھر مقدمات کو طوالت دینے کے بعد قوانین میں من پسند ترامیم کرکے مقدمات سے جان بخشی کرا لی۔ چند ماہ قبل میاں شہباز شریف کے دور میں نیب قوانین میں ترامیم کرکے سیاست دانوں نے اپنے خلاف مقدمات
سے جان چھڑا لی لیکن عوام کی نظروں میں وہ بدستور ملزم ہیں۔ مینا ر پاکستان کے جلسے کے بعد میاں نواز شریف نے سیاسی جماعتوں ( پی ڈی ایم) سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے سب سے اہم بات یہ ہے پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی کی سیاست سے اپنی جماعت کو دور رکھنے کا عندیہ دیا ہے وہ وزارت عظمیٰ کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ میاں نواز شریف کا سیاسی جماعتوں سے رابطے کے اعلان سے یہ بات واضح ہے مسلم لیگ نون آنے والے انتخابات جب بھی ہوئے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے اشتراک سے الیکشن میں حصہ لے گی۔ بلوچستان سے بی اے پی کا مسلم لیگ نون سے مل کر چلنے کا اعلان اس امر کی طرف اشارہ ہے آنے والے الیکشن میں اقتدار کی ہما نواز شریف کے سر پر بیٹھے گی۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے نواز شریف کا پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی کی سیاست سے گریز وزارت عظمیٰ کے لئے راہ ہموار کرنے کی طرف پیش رفت ہے جس کی ایک بڑی وجہ بلاول بھٹو اپنے طور پر وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ میاں نواز شریف اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں وہ چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے۔ مینار پاکستان کے جلسے کی تیاری اور ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ہوائی اڈے سے ہیلی کاپٹر کے سفر سے یہ بات واضح ہے وہ وزارت عظمیٰ کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو وطن عزیز میں کوئی ایسا سیاست دان نہیں ہے جو وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کی اہلیت کا حامل ہو ۔ اگرچہ عمران خان ،نواز شریف کے مقابلے میں بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہے، گو عمران خان کی حکومت کی ناکامی کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں، جنہیں ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں تاہم اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا وہ طالع آزمائوں کے حصار میں پھنسا رہا ہے، جو اس کی حکومت کی ناکامی کا سبب بن گئے۔ بہرکیف ہمیں باہم مل کر ملک و قوم کی ترقی کے لئے حق تعالیٰ کے حضور دعا کرنی چاہیے کسی طریقہ سے ہمارا ملک بحرانوں سے نکل سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button