Ahmad NaveedColumn

نوبیل امن انعام یافتہ نرگس محمدی کوسلام

احمد نوید
نرگس محمدی اس وقت 10سال 9ماہ کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان پر قومی سلامتی کے خلاف کارروائیوں اور ریاست کے خلاف پراپیگنڈے کا الزام ہے۔ انہیں 154کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی تھی ، جس پر عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ ان پر سفر اور دیگر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل کی تاریک ترین قید خانے بھی نرگس محمدی کی طاقتور آواز کو کچل نہیں سکے ہیں۔
جیل ایوین کے اندر سے ایک آڈیو ریکارڈنگ میں جو امن کے نوبل انعام کے اعلان سے قبل سی این این کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔ نرگس محمدی کو آزادی کے نعروں کی قیادت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے، جو بغاوت کا نعرہ پچھلے سال 22سال کی مہسا امینی کی موت سے شروع ہوا تھا۔ اسے مبینہ طور پر اسکارف صحیح طریقے سے نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ایون جیل خواتین کو ’’ بیلا سیائو‘‘ کا فارسی گانا گاتے ہوئے سنا گیا ہے۔ یہ اطالوی لوک گیت جو فاشسٹوں کے خلاف مزاحمتی ترانہ بن گیا اور اسے ایران کی تحریک آزادی نے اپنایا لیا ہے۔ یہ دور اس جیل میں سب سے بڑے احتجاج کا دور تھا اور اب بھی ہے۔
جیل کی دیواروں کے باہر ایرانی حکام کی جانب سے احتجاج پر ایک ظالمانہ کریک ڈائون نے بڑی حد تک امینی کی موت سے شروع ہونے والی تحریک کو روک دیا اور اخلاقی پولیس نے جولائی میں اپنے سر پر اسکارف گشت دوبارہ شروع کیا۔ ایرانی کارکنوں نے اس ہفتے الزام لگایا کہ انہوں نے تہران کے میٹرو سٹیشن میں ایک نوعمر لڑکی پر اسکارف نہ پہننی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو کر ہسپتال میں داخل ہوئی تھی۔ نرگس محمد ی کا کہنا تھا کہ حکومت کے رویے نے ایک بار پھر ہمارے خدشات کو جنم دیا ہے اور آرمیتا گیراوند کے بارے میں سچائی کو سامنے آنے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نرگس محمد ی عوامی طور پر بولنے کی قیمت کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ اگست سے جیل میں ان کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے اور ان کی سزا میں ایک سال ک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ ایک میڈیا انٹرویو اور جیل میں جنسی حملوں کے بارے میں ایک بیان دینا تھا۔ نرگس محمد ی ایران کے وحشیانہ جیل کے طریقوں کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھ رہی ہیں، جس کا عنوان سفید تشدد ہے ۔ یہ کتاب ایرانی خواتین قیدیوں کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ قید تنہائی میں سزا کاٹتی قیدیوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔
ایرانی خواتین کو حجاب بل کی منظوری کے بعد نامناسب لباس پر 10سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔ نرگس محمد ی نے حال ہی میں سی این این کو اسلامی جمہوریہ کے لازمی حجاب کے چار دہائیوں کے خلاف ایک لمبا خط بھیجا اور لکھا کہ یہ ایک مذہبی ریاست کی منافقت ہے ،جو خواتین قیدیوں کے خلاف جنسی تشدد کا استعمال کرتی ہے۔ اس نے خط میں لکھا کہ وہ آدھی آبادی یعنی معاشرے کے مردوںکو عبایہ اور پگڑی نہیں پہنا سکتے تھے، تو انہوں نے ایران کی نصف آبادی کو آسانی سے لازمی حجاب، نقاب، چادر، مینٹیو، اور سیاہ رنگ کی پتلونوں سے آراستہ کر دیا ،تاکہ دنیا کے سامنے ظالمانہ نظام کا مکروہ چہرہ پیش کیا جا سکے۔ ان ایرانی خواتین کا تصور کریں، جو 44سال سے سر ڈھانپنے، لمبے کوٹ، اور گہرے رنگ کی پتلون اور بعض جگہوں پر سیاہ چادریں پہننے پر مجبور ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ وہ مجبوریوں پر سختی سے عمل کرنے کے لیے نفسیاتی دبائو میں ہیں۔ نرگس محمد ی لکھتی ہیں، متاثرین نے اپنی کہانیاں ان اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں سنائیں جو قرچک جیل میں معائنے کے لیے آئے تھے۔ جیل میں انہوں نے تین احتجاج کرنے والی خواتین کی داستانیں سنی ہیں، جن کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ ان میں سے ایک طالبعلم تحریک کی ایک معروف کارکن تھی۔ جس نے جیل میں داخل ہوتے ہی حکام کو شکایت درج کرائی اور اعلان کیا کہ سڑک پر گرفتار ہونے کے بعد اس کے ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کو کف لگا کر دونوں انگوٹھیوں سے باندھ دیا گیا ہے۔ کار کے دروازے کے اوپر اور اس پوزیشن میں اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ نرگس محمدی کا کہنا ہے کہ وہ اور ایک اور قیدی نے ایک دوسرے قیدی کے پاس کھانا لے جانے کے بہانے جیل کے ’’ قرنطینہ‘‘ علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے وہاں ایک نوجوان خاتون کے پیٹ، بازوئوں، ٹانگوں اور رانوں پر زخموں کے نشانات دیکھیں۔ ایرانی حکومت نے نرگس محمدی کے الزامات کی تردید کی ہے۔ ایرانی حکومت نے زیر حراست افراد کے خلاف جنسی حملوں کے بارے میں بشمول گزشتہ سال CNNکی ایک تحقیقا ت کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نرگس محمدی کئی سال سے قیدیوں کے خلاف جنسی تشدد کے بارے میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ 2021ء میں انہوں نے کلب ہائوس سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے ایک مباحثے کی میزبانی کی، جہاں نرگس محمدی سمیت دیگر خواتین نے 1980 سے 2021تک حکومتی ایجنٹوں کے ہاتھوں ہونے والے حملوں کی کہانیاں شیئر کیں۔ نرگس محمدی کے مطابق اس کے لیے انہیں سزا دی گئی۔ سلاخوں کے پیچھے خاموش رہنے سے انکار کرنے پر نرگس محمدی پر گزشتہ 18ماہ سے اپنے شوہر اور بچوں سے براہ راست بات کرنے پر پابندی عائد ہے۔
نرگس محمدی کے شوہر طغی رحمانی فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں سے انہیں اپنے نوعمر جڑواں بچوں کے لیے باپ اور ماں کے طور پر کام کرنا پڑا ہے۔ نرگس محمدی کے بیٹے علی کہتے ہیں کہ انہیں اپنی ماں پر فخر ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ نہیں تھیں ، لیکن جب بھی تھیں ۔ انہیں نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ وہ ایک اچھی ماں تھیں اور اب بھی ہے۔ میں نے اب اس قسم کی زندگی کو قبول کر لیا ہے۔ کوئی بھی تکلیف جو مجھے برداشت کرنی پڑے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنے خاندان سے جدائی کا درد نرگس محمدی کے ساتھ ہر پل ہے۔ لیکن یہ اس قربانی کی قیمت ہے، جسے نرگس محمدی نے مستقبل کی آزادی کے خواب کے لیے چنا ہے۔ جس سے اس کی زندگی کو آج اطمینان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button