ColumnRoshan Lal

نوازشریف کی واپسی، ڈیل یا نو ڈیل

روشن لعل
میاں نوازشریف کی یقینی وطن واپسی پر مسلم لیگ ن کے لوگ انہیں نہ صرف بطل حریت بلکہ جمہوریت کا چیمپئن، غربت کے خاتمے کا محرک، ملک کی کایا پلٹنے والا ، معیشت کو یو ٹرن دے کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا اور اس کے علاوہ نہ جانے اور کیا کیا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف کے پرستار جس طرح کی عقیدت کے تحت ان کی صفات بیان کر رہے ہیں ، ان کے ناقد اسی قدر معروضیت کے ساتھ ان سے وابستہ کی گئی صفتوں کی وضاحت مانگ رہے ہیں۔ عقیدت مندوں کی طرف سے میاں صاحب سے وابستہ کی گئی صفتیں اگر حقیقت میں کسی سیاستدان کی شخصیت کا حصہ بن جائیں تو پھر وہ عام سیاستدان نہیں رہتا بلکہ نیلسن منڈیلا جیسے لوگوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ میاں نوازشریف کو نیلسن منڈیلا بنانے والوں کے سامنے اگر ان کے لیڈر سے وابستہ کی گئیں صفات سے متعلق سوال کیے جارہے ہیں تو ان سوالوں کو کسی بھی طرح بلا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ میاں نوازشریف کے ساتھ ہوشربا صفات وابستہ کرنے والوں کے پاس اگر عقیدت ہے تو سوال اٹھانے والوں کے سامنے میاں صاحب کا ماضی ہے۔ میاں نوازشریف سے وابستہ کی گئی ہر صفت کو ان کے ماضی کی روشنی میں دیکھنے کے بعد جو سوال پیدا ہورہے ہیں ان کی توجیہہ بیان کرنا کیونکہ چند سو الفاظ پر مشتمل کالم میںممکن نہیں ہے ، اس لیے آنے والے دنوں میں گاہے بگاہے ان سوالوں پر کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ زیر نظر تحریر میں فی الوقت صرف اس ابہام کا ذکر کیا جارہا ہے جس نے میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے محرکات کو معما بنایا ہوا ہے۔ میاں نوازشریف کے وطن واپس آنے سے جڑا معما یہ ہے کہ ان کی واپسی کسی ڈیل کے تحت ممکن ہوئی ہے یا وہ کسی کی سہولت کاری کے بغیر محض وطن کی محبت میں لندن سے پاکستان آرہے ہیں۔
کوئی بھی شخص ، جس کا ماضی کھلی کتاب ہو ، اس کے متعلق کیے گئے دعووں کی حقیقت جاننے اور جڑے ہوئے معمے حل کرنے کے لیے ، اس کے ماضی کی کھلی کتاب سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف جس طرح پاکستان واپس آرہے ہیں ، اس طرح سے وطن واپسی ان کی زندگی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ میاں نوازشریف جس طرح پہلی مرتبہ جیل سے بیرون ملک گئے اسی طرح دوسری مرتبہ بھی انہیں جیل سے غیر معمولی طور پر رہا کرنے کے بعد لندن بھیجا گیا۔ میاں نوازشریف کو مشرف دور میں جب جیل سے سیدھا ایئرپورٹ پہنچا کر خصوصی طیارے کے ذریعے سعودع عرب بھیجا گیا اس وقت ان کے ترجمانوں نے کہاتھا کہ وہ مشرف کے ساتھ کی گئی کسی ڈیل کے نتیجے میں نہیں بلکہ سعودی بادشاہ فہد کی خواہش پر ان کے ملک بھیجے گئے ہیں ۔ بعدازاں مسلم لیگ ن کے ترجمانوں کا یہ پراپیگنڈا آدھا سچ ثابت ہوا ۔ میاں نوازشریف کے مشرف دور میں براہ راست جیل سے سعودی عرب جانے کے حوالے سے مکمل سچ یہ تھا کہ وہ مشرف کے ساتھ ایسی ڈیل کر کے سعودی عرب گئے جس میں انہوں نے آئندہ دس برس تک بیرون ملک قیام کرنے کا وعدہ کرنے کے ساتھ یہ عہد بھی کیا کہ وہ نہ تو سیاست میں حصہ لیں گے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی سیاسی بیان دیں گے۔ اس کے بعد جس طرح عدلیہ کے ذریعے ان کی ملک واپسی کی راہ ہموار کی گئی ، جس طرح انہوں نے ججوں کے بحالی کے لیے کردار ادا کیا، جس طرح وہ میمو سکینڈل کا بے بنیاد کیس افتخار چودھری کی عدالت میں لے کر گئے اور جس قسم کا کردار انہوں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود اس وقت کی وفاقی حکومت کے خلاف افتخار چودھری اور اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کرتے ہوئے ادا کیا اس سے یہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ مشرف دور میں ان کی ملک سے روانگی کی طرح وطن واپسی بھی ڈیل کا ہی نتیجہ تھی۔
مشرف دور میں میں نواز شریف کی ڈیل کے تحت سعودی عرب روانگی اور پھر ڈیل کے تحت ہی وطن واپسی کے متعلق کوئی ابہام باقی نہیں ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری مرتبہ میاں نوازشریف کی جیل سے بیرون ملک روانگی کی گنجائش کسی ڈیل کے تحت نکالی گئی تھی یا ان کو جو سہولت دی گئی وہ کسی بھی پاکستانی کو بوقت ضرورت فراہم کی جاسکتی ہے۔ میاں نوازشریف جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد جب 18نومبر 2019کولندن روانہ ہوئے اس کے کچھ دنوں بعد معروف صحافی ہارون الرشید نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ 500 ملین ڈالر کی ڈیل کے تحت بیرون ملک جانے کی سہولت
فراہم کی گئی ہے اور ان 500ملین ڈالروں میں سے 445ملین ڈالر قومی خزانے میں جمع ہوئے جبکہ باقی 55 ملین ڈالر کس کی جیب میں گئے یہ بات ایک راز ہے جو کبھی نہ کبھی منظر عام پر آجائے گی۔ میاں نوازشریف کی لندن روانگی میں عدلیہ نے بھی خاص کردار ادا کیا تھا، حیرت کی بات ہے کہ ہارون الرشید صاحب کے اتنے بڑے الزام پر نہ تو عدلیہ کی طرف سے ازخود نوٹس لیا گیا اور نہ میاں نوازشریف کی فیملی کی طرف سے ان پر کسی قسم کا ہتک عزت کا دعوی دائر ہوا۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ن لیگ کے ترجمانوں میں سے کسی کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ وہ خاص طور پر کی گئی کسی پریس کانفرنس میں ہارون الرشید کے بیان کو چیلنج کریں۔ میاں نوازشریف کے لندن جانے سے قبل پاکستان میں کچھ خاص قسم کی ہلچل دیکھنے میں آئی تھی۔ عمران خان نے جولائی 2019میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ جیل میں نوازشریف اور آصف علی زرداری کو حاصل سہولتیں ختم کر دیں گے۔ مگر بعد میں دیکھا گیا کہ انہوں نے سہولتیں ختم کرنے کی بجائے ایسی میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر میاں نوازشریف کو لندن جانے کی اجازت دی جن رپورٹوں کو ان کی میڈیا ٹیم بعد میں غلط قرار دیتی رہی۔ اکتوبر میں مولانا فضل الرحمٰں نے کراچی سے اسلام آباد کے لیے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کیا ، یہ لانگ مارچ ابھی راستے میں ہی تھا کہ 24اکتوبر کو جیل میں قید میاں نوز شریف کی ضمانت ہو گئی، اس کے بعد13 نومبر کو مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں جاری اپنا دھرنا ختم کیا، 14نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے میاں نوازشریف کو علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی اور 18نومبر 2019کو وہ لندن روانہ بھی ہو گئے۔ میاں نوازشریف کے ماضی کی روشنی میں ا ن کی اب وطن واپسی کو بھی ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے ۔ جس ملک میں طے شدہ آئین اور قانون موجود ہو اس ملک میں ڈیل کے تحت کسی کا ملک سے جانا اور واپس آنا گو کہ ایک بہت بڑا ایشو ہے مگر اس ایشو سے بھی بڑی اور قابل غور بات یہ ہے کہ جو بندہ ڈیل کے تحت جلاوطن ہورہا ہے اور ڈیل کے تحت ہی واپس آرہا ہے کیا اسے نیلسن منڈیلا جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button