ColumnQadir Khan

مشرق وسطیٰ تنازع کے نتائج اور امکانات

قادر خان یوسف زئی
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس امر کا اظہار تو کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پٹی پر قبضہ کرتا ہے تو معاملات سنگین ہو سکتے ہیں ، انہی خدشات کا اظہار ایران کی جانب سے بھی کیا گیا کہ اگر اسرائیل زمینی جنگ شروع کرتا ہے تو امن کا قیام مشکل ہوجائے گا اور پھر ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکے گا، نیز تنازع مشرق وسطیٰ میں پھیلائو کا سبب بنے گا ، عرب ممالک میں سعودیہ اور اسرائیل تعلقات ایک مرتبہ پھر سرد مہری کا شکار ہو گئے۔ امریکہ سعودی عرب اور مصر سے حماس کی مذمت نہ کرا سکا، جبکہ جنگ بندی کی روس اور برازیل کی قرارداد امریکہ نے ویٹو کردی۔ سعودی عرب اور اسلامی تعاون تنظیم نے اسرائیلی حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو پہلے تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملاقات کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کی شٹل ڈوپلومیسی ناکام ہوئی ۔ امت مسلمہ کے عوام تو قریباََ پوری دنیا میں مظاہرے کر رہے ہیں ، لیکن مغربی ممالک ، یورپ ، امریکہ اس زبان سے شناسا نہیں ہیں اس لئے مسلم اکثریتی ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں کے رویوں سے سخت مایوس نظر آتے ہیں اور ان کا غصہ بڑھتا جارہا ہے ، یہ ایک اور تشویش ناک بحران میں ڈھل سکتا ہے ۔
اسرائیل اور مزاحمتی گروپ حماس کے درمیان جاری تنازع نے مشرق وسطیٰ میں صورت حال کے وسیع تر اور تباہ کن تنازع میں تبدیل ہونے کے امکانات کے بارے میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس صورتحال میں ایران اور حزب اللہ کے ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ امریکی حکام کی جانب سے حالیہ انتباہات نے خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ یوکرین ۔ روس تنازع کا کوئی حل ابھی تک نہیں نکالا جاسکتا اور معاملات میں امریکہ ، اسرائیل مداخلت قوتوں کا ایک بلاک بنتا جارہا ہے ، بالخصوص روس اور ترکیہ کی جانب سے صورت حال کی سنگینی پر عرب دنیا کے ساتھ رابطے اس امر سے آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر معاملات کو سلجھانے میں مزید تاخیر کی گئی تو ممکن ہے کہ فلسطین میں اُسی طرح مدد فراہم ہونا شروع ہوجائے، جس طرح یورپ ، برطانیہ اور امریکہ یوکرین کو فراہم کررہاہے ۔ امریکہ کو اس امر کا ادرک ہے ، اس لئے امریکی حکام نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع ایک بڑے علاقائی تنازع میں پھیل سکتا ہے۔ بنیادی تشویش لبنانی مزاحمتی گروپ حزب اللہ کی شمولیت ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اس بات کا خدشہ بااتم موجود ہے ہے کہ حزب اللہ شمال سے اسرائیل پر حملے کر سکتی ہے، اس طرح جاری تنازع میں دوسرا محاذ کھل جائے گا۔ مزید برآں ایران نے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فلسطینیوں کے خلاف جارحیت بند نہ ہوئی تو وہ اس صورت حال میں ملوث ہو سکتا ہے۔ یہ پیش رفت تنازع کے مزید بڑھنے کے امکانات کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بڑھتے ہوئے تنازعات کا فوری اور سب سے زیادہ تشویشناک نتیجہ انسانی بحران ہو گا۔ ایک توسیع شدہ جنگ خطے میں شہری آبادی میں ہلاکتوں، بے گھر ہونے اور مصائب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع تر تنازع توانائی کی عالمی منڈیوں میں خلل ڈالے گا۔ یہ خطہ تیل اور قدرتی گیس کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور کوئی بھی عدم استحکام دنیا بھر میں توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے اور سنگین معاشی غیر یقینی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک توسیع شدہ تنازع پہلے سے ہی کمزور خطہ کو مزیدغیر مستحکم کرچکاہے۔ یہ حکومتوں کے خاتمے، انتہا پسند گروہوں کی مزید بنیاد پرستی، اور طاقت کے خلا پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے ۔ جاری تنازع مشرق وسطیٰ میں سفارتی کوششوں کو متاثر کر چکا ہے، خاص طور پر جن کا مقصد اسرائیل-فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل تلاش کرنا تھا۔ اب تنازع پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچتا محسوس ہو رہا ہے ، تمام تر مساعد کے باوجود لڑو ، مرو یا مار دو کی بنیاد پر فلسطین کی عوام متفق ہوچکی ہے۔ مشرق وسطیٰ ایک جیو پولیٹیکل ہاٹ سپاٹ بنا ہوا ہے، اس خطے میں متعدد ممالک شامل ہیں۔ ایک توسیع شدہ تنازع امریکہ اور روس سمیت مختلف ممالک میں گھسیٹ سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر زیادہ اہم بین الاقوامی بحران کا باعث بن گا۔ بڑھتے ہوئے تنازعات کے درمیان کسی ممکنہ فوائد کو تلاش کرنا مشکل لگ سکتا ہے، لیکن کچھ منظر نامے بالواسطہ ہی سہی، مثبت نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک توسیع شدہ تنازع خطے میں اتحادوں اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملیوں کا از سر نو موجب بننے جارہا ہے۔ یہ اسرائیل-فلسطینی تنازع کے لیے زیادہ متوازن نقطہ نظر کی راہ ہموار کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر نئے سرے سے امن مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ حماس اور اسرائیل کو اگر روکا نہیں گیا تو سرنگوں کی جنگ ایک ایسی گوریلا جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے جو گلی گلی میں ہوگی ۔ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان اور ویتنام سمیت عراق میں گوریلا جنگ کتنا جانی ، مالی اور دفاعی نقصان کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے ممکنہ پھیلا کے بارے میں انتباہات گہری تشویش کا باعث ہیں، ان سنگین نتائج کے پیش نظر جو خطے اور پوری دنیا دونوں کے لیے لا سکتے ہیں۔ انسانی بحران، معاشی خلل اور عدم استحکام کا خطرہ نمایاں ہے۔ تاہم، عالمی رہنماں کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ سفارتی حل اور تنازعات کی روک تھام کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدترین حالات کو ٹالیں اور زیادہ مستحکم اور پرامن مشرق وسطیٰ کی راہ ہموار کریں۔ اس غیر مستحکم خطے میں تعاون اور بات چیت کا عزم طویل مدتی امن اور خوشحالی کی بہترین امید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button