ColumnNasir Naqvi

جادو کی چھڑی نواز شریف کے پاس نہیں؟

ناصر نقوی
1947ء سے اب تک پاکستانی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھتے، سیاستدانوں کے بلند بانگ دعوے اور آمروں کے غیر آئینی اقدامات میں بھی ہمیشہ استحکام پاکستان کے لیے پْرامید رہے اور اپنی صلاحیتوں اور محنت سے سر جھکائے جدوجہد میں مصروف رہے کہ کبھی تو مشکلات ختم ہوں گی۔ معصوم عوام ہر دور میں رزق حلال کمانے کی کوشش کرتی رہی، جس نے زیادہ کمائی کی اس نے زیادہ ٹیکس دیا۔ جس نے کم کمایا اس کا بھی ٹیکس کٹتا رہا لیکن جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ ہمیں ترقی و خوشحالی کا سبز باغ دکھانے والے جمہوری اور غیر جمہوری قائدین ہمارے ٹیکس اور قومی خزانہ لوٹ کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور جس نے زیادہ ترقی کی اس نے زیادہ ٹیکس بچانا شروع کر دیا اور ’’ مک مکا‘‘ کا فارمولا رائج ہوا اور وہ اب تک چل رہا ہے حکومت اور ذمہ دار ادارہ ایف بی آر شور مچاتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، صاحب حیثیت اشرافیہ، صنعت کار اور سرمایہ دار کہتے ہیں ٹیکس کی ادائیگی تو جب کریں جب سہولیات دی جائیں، ایک مرتبہ ٹیکس گزار بن جائو تو نفع ہو کہ نقصان اگلے سال اس سے زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا ورنہ چھان بین، پکڑ دھکڑ اور آخری مرحلہ ’’ مک مکا‘‘ ۔ لہٰذا وہ آخری مرحلے ’’ مک مکا‘‘ پر کاربند ہو کر پہلے دو مراحل چھان بین او پکڑ دھکڑ سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ نوٹ سرکاری ملازمین، دھونس، دھاندلی اور دبائو سے باپ کا مال سمجھ کر رشوت میں لے اڑتے ہیں اور پھر حکومت چیختی چلاتی رہ جاتی ہے جتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے اس سے زیادہ ناجائز اور غیر قانونی طور پر اہلکار ذاتی طور پر اکٹھا کر لیتے ہیں جبکہ عام سرکاری اور متوسط ملازمین کا ٹیکس تنخواہوں سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ دیہاڑی دار اور غریب لوگ اس مد میں آتے ہی نہیں کیونکہ ہوائی روز ملی ملی نہ ملی تو نہ سہی۔ قیام پاکستان پر اس خطے پر بسنے والے خوش تھے کہ انہیں ’’ ہندو بنیا‘‘ سے نجات مل گئی ہے۔ آزادی سے اپنے رسم و رواج ، مذہبی آزادی سے جئیں گے اور خود بھی خوشحال ہوں گے اور ریاست کو بھی مستحکم کریں گے اسی مقصد کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں فرنگیوں اور ہندوئوں سے لڑ کر علیحدہ ریاست بنائی تھیں، اَن گنت خواب ادھورے تھے، بے سرو سامانی میں زیرو سے پاکستان اور پاکستانیوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا، قائد اعظمؒ نے واضح اعلان کیا تھا کہ اس آزاد پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کے لیے بلا امتیاز اور بلاتفریق نسل و مذہب سب صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور انہیں فطرت کے مطابق ایسی آزادی حاصل ہو گی جس سے کسی دوسرے کی دل آزاری نہ ہو، سب مشترکہ جدوجہد اور مفاد عامہ کے لیے تحریک آزادی کے جذبے سے کام کر کے مملکت کو مضبوط کریں گے لیکن پاکستان کی قسمت نے وفا نہیں کی، بابائے قومؒ دنیا سے رخصت ہو گئے اور پھر بین الاقوامی سازش میں پہلے وزیراعظم اور قائد کے دست راست خان لیاقت علی خاں کو جلسہ عام میں گولی مار دی گئی۔ ان حالات میں انگریز کی تربیت یافتہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رنگ جمایا اور اقتدار کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ’’ سرکس‘‘ شرو ع کی گئی، حکومت جم نہ سکی، وزیراعظم یوں بدلے گئے کہ بھارتی حکمرانوں نے تنقید کی کہ اس قدر توہم ’’ دھوتیاں‘‘ نہیں بدلتے جس طرح پاکستان میں وزیراعظم بدلے جاتے ہیں۔ اقتدار کی آنکھ مچولی میں ’’ پاکستان‘‘ آزاد ریاست کی حیثیت سے نہیں چل سکے گا بلکہ اسے ’’ بھارت‘‘ سے ’’ کنفیڈریشن‘‘ بنانی پڑے گی، یہ روز اول سے بھارتی خواہش تھی اور ذمہ داروں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پاکستان بھارت کا مشترکہ وزیراعظم بنانے کی پیشکش بھی کی تھی، جو بابائے قومؒ نے ٹھکرا دی تھی ان کا کہنا تھا جو لوگ آزاد ریاست حاصل کر سکتے ہیں وہ کبھی اپنے آبائو اجداد کی قربانیاں فراموش نہیں کر سکتے۔ وہ اسے نہ صرف چلائیں گے بلکہ ’’ دنیا‘‘ میں نام بھی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دو اہم رہنمائوں کی رحلت سے بڑا قومی نقصان ہوا اور قائداعظمؒ کے سزا یافتہ جنرل ایوب خان والد محترم گوہر ایوب خان اور دادا حضور عمر ایوب خان سیکرٹری جنرل تحریک انصاف نے آئین، قانون اور جمہوری روایات کو روندتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر کے مملکت پاکستان کو مارشل لاء کے حوالے کر دیا۔ 10سالہ اقتدار میں ایوب خاں کی بہت سے فتوحات منظر عام پر آئیں۔ تربیلا، منگلا ڈیمز بھی اسی دور میں بنے۔ اس غیر منتخب حکومت نے اپنی من مرضی سے حکومت چلائی اور عوام کو بہت سی سختیاں بھی جھیلنی پڑیں جس وقت وہ اپنی کامیابی کا دس سالہ جشن منا کر ابھی تھکان بھی نہیں اتار پائے تھے کہ ’’ مہنگائی‘‘ کا ایک جھونکا آیا اور چینی اچانک ڈیڑھ روپے مہنگی ہوئی تو کہرام مچ گیا، پھر ان کے لاڈلے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو غریب عوام یاد آ گئی، انہوں نے محبت عوام میں ’’ طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر آ گئے۔ عوامی غصہ صدر ایوب پر تھا لہٰذا احتجاجی جلوس نکلے، وہ پرانی روایات اور تہذیب کے نمائندے تھے لیکن دس سالہ آمرانہ حکومت کے تجربے سے عوامی تیور بھانپ گئے، انہوں نے اقتدار صدر یحییٰ کے حوالے کیا اور رخصت ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سیاسی بحرانی دور میں سوشلزم کے حوالے سے ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا ناقابل فراموش نعرہ لگایا جو بھٹو کی طرح آج بھی زندہ ہے۔ صدر جنرل یحییٰ خان کو سیاست سے کچھ عزیز تھا اس لیے انہوں نے پاکستانی تاریخ کے پہلے اور آخری غیر جانبدارانہ الیکشن کرائے۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان جیت گئے اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب۔۔۔۔۔ یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا، بھٹو صاحب نے دھمکی دے دی ’’ جو جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے والد محترم محمود قصوری مرحوم قریب کھڑے تھے، بھٹو صاحب نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’ آپ بھی سن لیں بات !!!‘‘ روزنامہ آزاد’’ میں عباس اطہر کی سرخی پر ختم ہوئی ’’ ادھر تم، ادھر ہم‘‘۔ بعد ازاں عباس اطہر تردید کر چکے ہیں کہ یہ سرخی ان کی تخلیق کردہ تھی، بھٹو صاحب کے الفاظ نہیں، لیکن پھانسی چڑھنے کے بعد بھی ان کی ’’ ادھر تم، ادھر ہم‘‘ سے جان نہیں چھٹی ، حالاں کہ بھٹو صاحب قائد عوام ہی نہیں فخر ایشیا بھی کہلائے، لیکن انہوں نے ملک و قوم کے لیے جو کچھ بھی کیا، ’’ عالمی اسلامی کانفرنس‘‘ میں امریکہ اور حواریوں کو ہضم نہیں ہوا، ’’ نظام مصطفیٰ‘‘ کے نام پر عوام کو بلیک میل کیا گیا۔ اور سیاسی عدم استحکام، بدامنی اور انتخابی دھاندلی کے بہانے سے جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت پر قبضہ کر لیا۔ نام نہاد عدالتی ٹرائل ہوا اور ناکردہ گناہوں پر ایک منتخب ہی نہیں ملک کا پہلا منتخب وزیراعظم تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ عوامی ردعمل آیا لیکن عوام بے چارے ظلم، تشدد اور جبر کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکے، انہوں نے عوام کے اعلیٰ ترین مفاد پر ہر وہ کام کیا جس کی اجتماعی مفادات میں ضرورت نہیں تھی۔ ڈکٹیٹر شپ کی خرابی ہی یہی ہے کہ وہ اپنے مدمقابل کسی دوسرے کو پسند نہیں کرتی، مقامی حکومتیں، غیر جماعتی الیکشن، مجلس شوریٰ سب کچھ تھا لیکن حقیقت میں حکومت ’’ ون مین شو‘‘ تھی۔ بہت سے سیاستدانوں نے ان کے ہاتھ مضبوط کئے اور پاکستان کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف ان کے دور میں گورنر غلام جیلانی کے ذریعے متعارف ہوئے پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ 12سالہ اقتدار اور افغان جہاد کی امریکی خدمت کے بعد ان ہی کے خفیہ ہاتھوں میں مارے گئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دو دو باریاں لیں، ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک بھی کہا اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی میں ’’ میثاق جمہوریت‘‘ بھی کیا۔ نواز شریف کی روایت ہے کہ ’’ امپائرز‘‘ سے مل کر کھیلو اور جب منصب حاصل ہو جائے تو ’’ امپائرز‘‘ کو ہی آنکھیں دکھائو، پہلے کارگل میں سپہ سالار کے فیصلے سے اختلاف کیا اور پھر اپنے ہی بنائے پرویز مشرف سے نادان دوستوں کے مشورے پر ہاتھ کرنے کی کوشش کی لیکن کمانڈو سپہ سالار نے جوابی کارروائی میں نانی یاد کرا دی۔
بات کہیں سے چلی اور کہیں نکل گئی، سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہے پس پردہ حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی دو جماعتی نظام سے نجات کے لیے عمران خان کا انتخاب کیا، تحریک انصاف پہلے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی، لیکن امپائرز نے انگلی پکڑی تو خان صاحب نے پرانے دوستوں کو چھوڑ کر گود میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا اور وزیراعظم بننے کی مراد بھی پوری ہو گئی لیکن بیساکھیوں اور ہرممکن سہولت کاری کے باوجود ناتجربہ کاری میں مار کھا گئے۔ اور تمام تر الزامات میں پھنس کر جیل تک پہنچ چکے ہیں۔ اگلی منزلیں بھی آسان دکھائی نہیں دے رہی پھر ریاستی سیاسی، معاشی اور آئینی بحران کا سبب خان اعظم کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسمبلیوں نے مدت پوری کی اور اتحادی حکومت بھی گھر چلی گئی۔ آئین اور قانون کا تقاضا 90روز میں الیکشن تھا۔ دو رائے ہونے کے باوجود بحرانوں نے کوئی مسئلہ سلجھنے نہیں دیا، بلکہ ’’ نائن مئی‘‘ کے سانحے نے معاملات یکسر بدل دئیے۔ مقبول ترین وزیراعظم اور مقبول ترین جماعت تحریک انصاف کا مستقبل خطرے میں ہے ایسے میں تاحیات نااہل ہونے والے بیمار سابق وزیراعظم نواز شریف چار ہفتوں کے علاج پر لندن چلے گئے اور نامکمل علاج کی صورت میں چار سال بعد مجبوراً واپس وطن آ رہے ہیں کیونکہ ریاست پاکستان ان سے بھی زیادہ بیمار ہے۔ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف اپنی بیماری بھول گئے، انہیں صرف پاکستان کی فکر لاحق ہے۔ حقیقت میں وہ نہیں آ رہے پاکستان کی معطل شدہ ترقی اور خوشحالی واپس آ رہی ہے۔ ن لیگ کا نعرہ ہے ’’ انشاء اللہ وہ سب ٹھیک کر دے گا؟‘‘ لیکن ابھی تو عدالتوں اور مقدمات نے بھی ان کی چھان پھٹک کرنی ہے وہ سزا یافتہ مجرم ہیں۔ حفاظتی ضمانت بھی انہیں چاہیے ورنہ گرفتاری ؟ بظاہر وہ گرفتاری کے لیے بھی تیار ہیں تاہم قانونی ٹیم کہتی ہے معاملات انڈر کنٹرول ہیں ، گرفتاری نہیں ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کی آمد کو سیاسی ماحول کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے پھر بھی سابق سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ کہتے ہیں ’’ ڈیل اور ڈھیل‘‘ سے شیر کی آمد ہے، تاہم سیاسی سرکس کا میدان لگے تو پتہ چل جائے گا کون کتنے پانی میں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ’’ لیول پلے فیلڈ‘‘ مسلم لیگ ن اور مریم سے مانگ چکے ہیں جس کا مطلب یہی تھا کہ ہم اتحادی ہیں ہم نے عمران خان کی چھٹی اور چاچو شہباز کو وزیر اعظم بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے لہٰذا اکیلے بات نہیں بنے گی، ہماری بھی فکر کریں؟؟؟ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ 16ماہ کی اتحادی حکومت میں مہنگائی کا ملبہ خالصتاً مسلم لیگ ن کے ذمے آیا ہے، اب وہ پھر یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ نواز شریف آ کر سب ٹھیک کر دے گا جبکہ سب جانتے ہیں کہ اسحاق دار کی آمد پر بھی ایسی ہی خبریں تھیں جو سچ ثابت نہیں ہوئیں اور حالات چغلی کھا رہے ہیں کہ نواز بھی کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ بھی مزاحمتی سے مفاہمتی ہو چکے ہیں۔ نگران حکومت میں ڈالر، پٹرول اور مافیاز کو آہنی ہاتھ ڈال کر مثبت نتائج سپہ سالار کی حکمت عملی سے نکلے ہیں۔ دیگر معاملات میں بھی بہتری آنے کی امید ہے۔ اگر نواز شریف نے اپنا لوہا منوانا ہے تو رزلٹ اس ے بھی بہتر کرنا ہو گا لیکن جادو کی چھڑی نواز شریف کے پاس نہیں۔ چھڑی اور طاقت کا بھاری بھرکم ڈنڈا حافظ صاحب کے پاس ہے۔ اگر اقتدار کے لیے دونوں میں انڈر سٹینڈنگ ہو چکی ہے تو زیادہ سے زیادہ حافظ صاحب کے بنائے ہوئی سنہری فریم میں اپنی تصویر فٹ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکے گا۔ جتنی ڈھیل ملنی تھی مل چکی، یہ بھی سیاسی ماحول اور الیکشن کا موڈ بنانے کے لیے دی گئی ہے۔ حکومت بنانے کے لیے وہ اکثریت ہرگز نہیں ملے گی جس کا ذہن مسلم لیگ ن نے بنا رکھا ہے۔ البتہ تعلقات اور مفاہمت پر چاچو کی مدد سے آزاد، آئی پی پی اور تحریک انصاف پارلیمینٹرین کندھا لگا سکتے ہیں ورنہ حکومت ایک بار اتحادی ہی بننے کی واضح اکثریت ہے موجود ہ ماحول میں کسی کو نہیں ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button