ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیدھا پائوں الٹا بوٹ

تجمل حسین ہاشمی
فلسطین پر ہونے والے ظلم کی مذمت کرتا ہوں، دعا گو ہوں کہ مسلم ممالک فلسطین کے حق میں کھڑے ہوں۔ اللّہ پاک سب کو اپنی حفاظت میں رکھے، آزادی بڑی نعمت ہے، جو اس وقت ہمیں نصیب ہے، آزادی کے ساتھ دفاعی مضبوطی بھی قوم کو سر اٹھا کر جینے کی ہمت دیتی ہے، سابق وزیر اعظم ، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے وہ الفاظ انتہائی اہمیت کے حامل تھے جب اقوام متحدہ میں اپنی تحریر میں کہا کہ ’’ جب کوئی حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دل کی تکلیف کتنی درد ناک ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حضورؐ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں‘‘۔ اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنا ظلم نا انصافی ہے۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے کا تعلق بھی اسلام سے جوڑا ہے، تمام مسلم امہ اس وقت تکلیف میں ہے۔ انسانیت اور قانون کا درس دینے والے طاقتور ممالک اور فلاحی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں، بچوں، بزرگوں اور عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، وہاں مسلمان بھی بستے ہیں اور غیر مسلم بھی لیکن انسانیت پر کیوں بم مارے جا رہے ہیں، کیا طاقتور ممالک دنیا سے انسانیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ چند لمحے غور کریں، اگر کرہ ارض سے دنیا کا وجود ختم ہو جائے اور اکیلے طاقتور کو اس زمین پر رہنے دیا جائے تو ذرا سوچیں طاقتوروں کی زندگی کیسی ہو گی، وہ کس پر حکمرانی کریں گے، کس پر بم ماریں گے، کس پر اپنی معاشی پابندیاں لگائیں گے، اربوں ڈالرز کے ہتھیاروں کی مارکیٹ کس کام کی ہو گی، اس ڈالر کی کیا حیثیت رہ جائے گی، کیسے زندگی گزاریں گے، طاقتور کمزور ممالک کا استحصال کا باعث ہیں۔ طاقتور ممالک کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر یہ دنیا نہیں رہے گی تو یہ ٹیکنالوجی، یہ انسانوں پر حکمرانی بھی نہیں بچے گی، ایک طرف فلاح و بہبود کے اعلانات ہیں اور دوسری طرف معاشی پابندیاں اور بم مار رہے ہیں اور نئے بم بنائے جا رہے ہیں، دوہرے معیار کا وقت ختم ہونے کے بہت قریب ہے، مسلمانوں کو ایک طرف کھڑا رہنا پڑے گا۔ پاکستان اسلامی ممالک میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ایک واقعہ مجھے یاد آیا جو ان موجودہ حالات کی تصویر کشی ہے۔ وہ لکھاری تھا، انسانیت سے محبت کرنے والا انسان، بابا کی قدر کرنے والا۔ ایک دن حرم شریف میں بیٹھا کیا دیکھتا ہے کہ ایک بزرگ حرم شریف میں خاص قسم کی حرکت کر رہا تھا، لکھاری نے پوچھا بابا کہاں کے رہنے والے ہو، بزرگ نی کہا کہ پاکستان سندھ سے ہوں اور کوئی 21سال سے یہاں رہ رہا ہوں، روزگار کے حوالے سے جواب دیا کہ منڈی سے 5ریال دن کے کما لیتا ہوں اور یہاں حرم شریف میں پڑا رہتا ہوں، کبھی کھڑا ہوتا ہوں اور کبھی گر پڑتا ہوں۔ مسلمانوں کی حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہو گئی ہے۔ فیصلے کا دن بہت قریب آچکا ہے، حکومت پاکستان کو واضح موقف لینا پڑے گا، ایک طرف کھڑے ہونا پڑے گا۔ مسلم ممالک میں پاکستان ایک سپر پاور اسلامی ریاست ہے، جس کا قیام اسلام کے نام پر ہے۔ اب پاکستان کو اپنے واضح موقف اور دفاعی طاقت پر کھڑے ہونا پڑے گا، جتنی مرضی معاشی، سیاسی مجبوریاں ہوں، اس کے بغیر ہمارے پاس جواز بہت کم رہ گئے ہیں۔ ان 76سال سے دفاعی طور پر پاکستان بہت مضبوط ہوا لیکن معاشی اعتبار سے انتہائی کمزوری کی طرف ہے، اس کمزوری کی وجہ سیدھا پائوں اور الٹا بوٹ ہے۔ ہر نئے سیاسی سیٹ اپ میں معاشی فیصلے ملکی مفادات سے زیادہ ذاتی رہے، اداروں کو کمزور کرنے کی پلاننگ غیر ملکی سازش ہے۔ ملکی معیشت کو کمزور کرنے کا ہتھیار نا اہل افراد اور رشوت خوری ہے، عسکری اداروں پر بلا جواز تنقید ہے۔ ایسے فیصلوں کی آبکاری سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں بیرونی منشا پر کی۔ کیا سیاسی جماعتوں کے قائدین جو پچھلے 40سال سے حکمران تھے، ان کے پاس اب کون سا جواز اور معاشی پلان ہے جو پہلے نہیں تھا۔ چار ہفتے کی ضمانت پر چار سال گزر گئے۔ اس پر تو سوال کریں۔ قانون کے محافظوں کو قانون کی عمل داری کرانی ہو گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی 24اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ ہیں۔ نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نی سال 2019میں صحت کی بنیاد پر حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتے کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔ ضمانت کا حق ضرور ملنا چاہئے۔ چار ہفتے کے آرڈر پر چار سال پر قانون کی کچھ تو عمل داری نظر آنی چاہئے ۔ سیاست کرنے کے حق پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے۔ چار ہفتے سے چار سال کا سوال تو کرنا چاہئے۔ ملکی سلامتی، ملکی وسائل پر ڈاکے اور فائلوں کے نیچے ٹائر لگوانے اور لگانے والوں کا احتساب ضروری ہے، احتساب کا مقصد لوٹی گئی دولت کی قومی خزانے میں واپسی ہو۔ لوٹی گئی دولت کی واپسی کے نعرے برسوں سے لگتے رہے لیکن سب کچھ سیاسی مفاہمت کی نظر ہوتا رہا، لیکن سیاسی قائدین کی طرف سے ملکی معیشت کے لیے کوئی مفاہمت نظر نہیں آئی، آج ایک بار پھر سیدھا پائوں الٹے جوتے میں ڈالنے کی کوشش جاری ہے لیکن اس سے مطلوبہ نتائج ممکن نہیں ہوں گے، یہ جوتا پائوں کو دوبارہ زخمی کر کے چھوڑے گا، سیدھا کیا ہے ؟ کس طرح اس معاشی بحران سے نکلیں گے۔ سیاست والوں کے پاس کچھ باقی نہیں رہا ۔ اب فیصلہ طاقتور حلقوں کو کرنا ہو گا۔ انتہائی سادہ اور آسان فیصلہ ہے، جس نے ملکی وسائل پر ڈاکا ڈالا ہے اس سے وصولی کی جائے، اس فیصلے کے ساتھ 24کروڑ عوام کھڑے نظر آئیں گے، لفظ مفاہمت کا قانون سے کیا تعلق ہے، قانون شہادت پر چلتا ہے اور ملکی معیشت اس وقت ڈیفالٹ پر ہے، یہی سب سے بڑی شہادت ہے۔ حال میں اعلیٰ اداروں کی طرف سے سخت کارروائی اور اقدامات نہ کئے جاتے تو اس وقت مہنگائی کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہوتی۔ غربت کی شرح میں دن با دن اضافہ ہو رہا ہے، پراپرٹی ڈیلرز جیسے کئی اور ڈیلروں نے فائلوں کو پہیے لگائے ہیں، اب فیصلہ کریں تو 1960ء والا پاکستان دوبارہ نظر آئے گا، 24کروڑ عوام اس فیصلے کا خیر مقدم کریں گے، قومی خزانے، وسائل کی بہتری کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں، 21اکتوبر سے 24تک دو اہم فیصلوں کے بعد ملکی حالات کس طرف جائیں گے واضح ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button