ColumnRoshan Lal

اساتذہ، نگران پنجاب حکومت اور آئینی حقوق

تحریر : روشن لعل
پولیس نے 12اکتوبر کو پورے صوبے میں کریک ڈائون کرتے ہوئے ان سیکڑوں سرکاری ملازمین کو گرفتار کیا جو پنجاب کی نگران حکومت کی طرف سے پینشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں کی گئی ایسی ترامیم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جن ترامیم کی وجہ سے انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت اور اس کے بعد پینشن کی مد میں ملنے واجبات میں نمایاں کمی ہو گئی ہے۔ احتجاج کرنے والے ان سرکاری ملازمین میں نہ صرف اساتذہ کی اکثریت تھی بلکہ سب سے بڑی تعداد میں گرفتار بھی ان کو ہی کیا گیا۔ پنجاب کی نگران حکومت نے پینشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں جو ترامیم کی ہیں ان کی وجہ سے مالی نقصان صرف سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کا ہی نہیں بلکہ صوبے کے تمام سرکاری ملازمین کا ہوا ہے۔ اگر پینشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں کی گئی ترامیم کے خلاف احتجاج میں سب سے بڑی تعداد میں اساتذہ نے شرکت کی اور زیادہ گرفتاریاں بھی انکی ہوئیں تو صاف ظاہر ہے کہ مذکورہ ترامیم پر سب سے زیادہ بے چینی اساتذہ میں پائی جاتی ہے۔
دنیا کے مہذب تصور کیے جانے والے ملکوں کے اساتذہ میں اگر کسی بھی وجہ سے بے چینی پائی جائے تو اسے سب سے زیادہ گھمبیر مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ اساتذہ کی بے چینی کو سب سے زیادہ گھمبیر مسئلہ سمجھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں اساتذہ جیسی تعظیم کا حقدار کسی اور کو نہیں سمجھا جاتا۔ وطن عزیز کی بات کیا کریں جب یہاں کسی کو یہ علم ہی نہیں کہ احترام ، عزت اور تعظیم میں فرق کیا ہے اور کون کیسے ان کا حقدار ہے تو کوئی کسی قابل تعظیم ہستی کی اس کے مرتبے کے مطابق کیسے عزت افزائی کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں بھی مہذب ملکوں کی طرح اساتذہ کو قابل تعظیم ہستی سمجھا گیا ہوتا تو ان کے لیے بھی عدلیہ سے وابستہ لوگوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم ان جیسی تنخواہیں، پینشن اور ریٹائرمنٹ کے واجبات ضرور مقرر کیے گئے ہوتے۔ یہاں پبلک سیکٹر میں خدمات سرانجام دینے والے اساتذہ کو کسی خاص تعظیم کا اہل سمجھنے کی بجائے کیونکہ عام سرکاری ملازم ہی سمجھا جاتاہے اس لیے ان کی تنخواہیں اور دیگر تمام واجبات بھی عام سرکاری ملازموں کی طرح مقرر کیے گئے ہیں۔ رواں برس جب وفاق اور دیگر صوبوں کے برعکس صرف پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے صوبے کے سرکاری ملازمین کے لیو انکیشمنٹ اور پینشن جیسے واجبات میں کٹوتیاں کیں تو عام ملازموں کی طرح اساتذہ بھی ان کٹوتیوں کی زد میں آگئے۔
سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کو
صرف صوبہ پنجاب میں ہی نہیں بلکہ وفاق اور دیگر تمام صوبوں میں عام سرکاری ملازم ہی سمجھا جاتا ہے۔ جب اساتذہ کا مقام پاکستان میں ہر جگہ عام سرکاری ملازموں جیسا ہے تو ان کے لیے خاص مالی مراعات کا مطالبہ کرنے کی بجائے صرف یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ساتھ کم از کم ایسا کچھ کرنے کی کوشش نہ کی جائے جس سے انہیں یہ لگے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے لیو انکیشمنٹ اور پینشن رولز میں من چاہی ترامیم کرکے نہ صرف اساتذہ سمیت دیگر تمام سرکاری ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا بلکہ وہ اس موقف پر بھی ڈٹی ہوئی ہے کہ جو کٹوتیاں کی گئی ہیں انہیں کسی طرح بھی واپس نہیں لیا جائے گا۔ اپنے اسی موقف کے تحت پنجاب کے نگران حکمرانوں نے نہ صرف صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے اساتذہ کو گرفتار کیا بلکہ انہیں آئندہ احتجاج سے روکنے کے لیے یہ دبائو بھی ڈالا کہ ان کے احتجاج کو بے ضابطگی تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کا نتیجہ ان کی ملازمت سے برخواستگی کی شکل میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ پنجاب کے نگران حکمرانوں کو یہ احساس تو نہیں ہوسکا کہ انہوں نے اپنے صوبے کے ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر انہیں ملنے والے واجبات میں نمایاں کمی کر کے جو امتیازی سلوک کیا وہ ان کا آئینی حق سلب کرنے کے مترادف ہے مگر انہیں یہ نظر آگیا کہ اپنا آئینی حق سلب کیے جانے پر ملازمین نے جو احتجاج کیا ہے وہ پیڈا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کو بھی کم و بیش ان ہی شرائط اور قوانین کے تحت سرکاری ملازمت فراہم کی گئی جو وفاق اور دیگر صوبوں میں رائج ہیں ۔ ملازمت کی فراہمی پر جاری کیا جانے والا تقرر نامہ ایک طرح سے دو طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں ایک طرف تو ملازم کی ذمہ داریوں کی تفصیل بیان کی گئی ہوتی ہے اور دوسری طرف اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ملازمت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے عوض اسے جو مشاہرہ دیا جائے گا اس میں سالانہ کتنی ترقی ہوگی اور ملازمت کے ریٹائرمنٹ یا کسی بھی صورت میں خاتمہ پر اسے کس مد میں کتنے واجبات ادا کیے جائیں گے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے صوبے کے ملازمین سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ انہیں یک جنبش قلم ان مالی فوائد سے محروم کر دیا ہے جو وفاق اور دیگر صوبے اپنے ملازموں کو اب بھی ادا کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک نگران حکومت نے اس صوبے میں یہ کارروائی کی ہے جس کے لیے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔ کیا اس صوبے کی مبینہ ترقی کی اصلیت یہی ہے کہ یہ صوبہ اپنے سرکاری ملازمین کو ان کا آئینی حق دینے کے قابل بھی نہیں رہا ۔ اگر اس مبینہ ترقی یافتہ صوبے کا خزانہ اس حد تک خالی ہو گیا ہے کہ اپنے ملازمین کے طے شدہ واجبات بھی ادا نہیں کر سکتا تو پھر اس صوبے کے ان سابقہ حکمرانوں کے ان دعوئوں کو کیا سمجھا جائے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے اس ملک اور اپنے صوبے کو پہلے بھی ترقی دی تھی اور اب بھی ترقی یافتہ بنائیں گے۔ جو سابقہ حکمران اپنی آئندہ حکمرانی کے لیے پھر سے پرامید ہیں انہیں چاہیے کہ سب سے پہلے نگران حکومت کی طرف سے لیو انکیشمنٹ اور پینشن کے قوانین میں کی گئی ان ترامیم کی مخالفت کریں جسے صوبے کے سرکاری ملازمین اپنے آئینی حق پر ڈاکہ تصور کر رہے ہیں۔
پنجاب کے سرکاری ملازمین کے لیے مہنگائی اسی طرح ہے جس طرح ملک کے دیگر حصوں کے ملازمین کے لیے ہے ۔ ان کی تنخواہوں پر ٹیکس اور دیگر کٹوتیاں اسی طرح لاگو ہیں جس طرح ملک کے دیگر حصوں کے سرکاری ملازمین کے لیے ہیں۔ یہ اپنی تنخواہ سے خریدی ہوئی چیزوں پر اسی طرح سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں جس طرح وفاق اور دیگر صوبوں کے ملازمین کرتے ہیں ۔ جب اساتذہ سمیت پنجاب کے تمام سرکاری ملازمین اپنی ذمہ داریاں اور ادائیگیاں اسی طرح کرتے ہیں جس طرح وفاق اور دیگر صوبوں کے ملازم کرتے ہیں تو پھر ان کی لیو انکیشمنٹ اور پینشن جیسے واجبات میں ملک کے دیگر حصوں کے ملازمین کی نسبت کی گئی واضح کمی کو ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے آئینی حق کی حلاف ورزی کیوں نہ سمجھا جائے۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین کا آئینی حق سلب کیے جانے پر عدلیہ کو ازخود نوٹس لینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button